ہم سے کوئی بھی عہد نبھایا نہیں گیا سر سے جمال یار کا سایہ نہیں گیا کب ہے وصال یار کی محرومیوں کا غم یہ خواب تھا سو ہم کو دکھایا نہیں گیا سائے کے نیچے کونسا پودا پنپ سکتا ہے اور سایہ بھی جب بوڑھے برگد کا ہو تو وہ کس کو پھلنے پھولنے دے گا۔ اگر اس کے نیچے اگنے والی پنیری ہی رہتی ہے اور پھر یہ کھاد کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ زراعت والے میری بات ذرا اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔فی الحال تو مجھے عمران خاں کی تازہ بات کرنی ہے جسے وہ کئی بار تازہ کر چکے ہیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے پھر کہا ہے کہ وہ وعدے پورے کریں گے یہ الگ بات ہے کہ وعدے عوام سے نہیں کسی اور سے ہیں۔کہ جن سے انہوں نے سچے وعدے کر رکھے تھے: اتنا سادہ بھی نہ تو ہم کو سمجھ تیرے وعدے پہ ہنسے تھے ہم بھی وعدے پر تو مرزا نوشہ بھی کہہ چکے ہیں کہ یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا۔ اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا اقبال نے کہا تھا نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی۔ مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی۔واقعتاً یہ وعدہ بھی بڑی شے ہے۔ کہا گیا کہ وہ وعدہ ی کیا جو وفا ہو گیا۔ تسکین تو مل جاتی‘ امید تو بندھ جاتی۔ وعدہ نہ وفا کرتے۔ وعدہ تو کیا ہوتا۔ پھر کسی نے تو کہہ کر حد ہی ک دی کہ مرے محبوب نے وعدہ کیا ہے پانچویں دن کا۔ کسی سے سن لیا ہو گا یہ دنیا چار دن کی ہے۔ آپ گھبرائیں نہیں اب کے وعدہ نبھانے کا عہد ق لیگ وغیرہ سے کیا ہے جس کے بارے میں کسی ستم ظریف نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ تو پی ٹی آئی کے نہیں بلکہ کسی اور کے اتحادی ہیں۔ پرویز الٰہی نے مندرجہ ذیل شعر کے مصداق کہہ دیا ہو گا کہ: کیسے سنبھال پائے گا اپنے تو ماہ وصال کو ہم نے اگر جھٹک دیا سر سے تیرے خیال کو خان صاحب کو بھی معلوم ہے کہ دوسری طرف کے اتحادیوں کی یلغار جاری ہے۔ بلاول اور مریم دونوں پوری فارم میں نظر آٰتے ہیں۔ عدم اعتمادی ادھر بھی ہے کہ مولانا نہیں تو ان کے ساتھی ضرور جانتے ہیں کہ معلوم نہیں کہاں آ کر ن لیگ دھوکہ دے جائے اور بلاول ڈیل کرنے میں زیادہ اچھی پوزیشن میں ہیں۔ خان صاحب مگر کسی کی میل ملاقات سے ڈرتے ہیں کہ مریم کی بات انہیں لڑی ہوئی ہے کہ ورق پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ آنکھ کے بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے!یہ ساری آمیزش اقتدار کی ہے جس میں عوام کا بالکل حصہ نہیں ہے کہ ان کا کام صرف ووٹ ڈالنا ہے بس یہی ان کی عزت افزائی ہے اور اکثر تو ان کو یہ زحمت بھی نہیں دی جاتی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ق لیگ کے مطالبات بھی اور دوسرے اتحادیوں کے مفادات بھی تو ایک قسم کا این او ہی ہے اگر یہ اتنا جائز اور سیدھا ہوتا تو ان کو شکایات کیوں پیدا ہوتیں سیاست نام ہی کچھ لو اور کچھ دو کا ہے۔ یہ جو مٹن اور کھیر پارٹی ہے یہ بھی تو سرکار پر بوجھ ہے وگرنہ خان صاحب تو سامنے بیٹھے شخص کو چائے پوچھنے کے روادار نہیں پلانی تو درکنار اور یہ بات سنی سنائی نہیں۔ آپ کی سرکار میں پہنچ کر سب نہائے دھوئے جاتے ہیں۔کائرہ صاحب کی گفتگو میں سن رہا تھا اور وہ نہایت جاندار اور باوزن تھی کہ یہ حکومت کا کام ہوتا ہے کہ دشمن کے بیانیہ پر سب کو ساتھ ملا کر چلے تاکہ ایک پیغام پہنچے کہ سلامتی کے مسئلے پر سب یکجا اور سیسہ پلائی دیوار ہیں مگر جناب تو پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کرپشن کرپشن کا شور مچا مچا کر لوگوں کو بے وقوف بنانے والا کوئی ایک کرپشن کیس نہ ثابت کر سکا اور نہ کسی کو سزا ہوئی دوسری بات یہ کہ وہ جو 200 ہزار ڈالر واپس لانا تھا اس کا کیا بنا۔ وہ جو ہزاروں ڈالر باہر جا رہے تھے وہ رک گئے تو کہاں ہیں؟ سب زبانی جمع خرچ اینکرز بار بار چیلنج کر رہے ہیں کہ یہ جو شہزاد کی پریس کانفرنسیں ہیں وہ صفر بٹا صفر برابرصفرکے سوا کچھ نہیں۔ سو دن سے ہزار اور اڑھائی سال ہو گئے ہوا کیا ہے پچھلے وعدے پورے کرنے کے مزید وعدے اور پھر دعوے ہی دعوے۔ سچ مچ ہیں لوگ اکتا چکے ہیں بلکہ پتھرا چکے ہیں۔ قمر زمان کائرہ نے یہ بھی کہا کہ وہ حکومت کو پہلے گلگت سے فارغ کریں گے پھر ملک سے، ویسے حکومت بھی جانتی ہے کہ اگر خدانخواستہ انتخاب ہو گئے تو کون کس کو فارغ کرے گا۔ اگر خان حکومت پراپیگنڈا کے ساتھ کچھ کارکردگی بھی دکھا دیتی تو شاید ان کی کچھ عزت رہ جاتی۔ پنجاب کا ردعمل سب کچھ بہا کر لے جائے گا آپ میری بات بے شک کہیں نوٹ کر لیں۔ اسٹیبلشمنٹ اچھا تاثردے رہی ہے کہ انہیں سب کا پیار اور سب کا ساتھ چاہئے موسم بدل رہا ہے موسم بووے جس دا گہنا۔ اوہو پھل ٹہنی تے رہنا۔ قبلہ جمہوریت میں ایک اپوزیشن بھی ہوتی ہے جو آپ کو من مانی نہیں کرنے دیتی۔ وہ لوگ بھی عوام کے نمائندہ ہیں۔ چلیے وہ چور ڈاکو ہی سہی اور پھر انہی کے رد کئے ہوئے چور اور ڈاکو آپ کے ساتھ آن ملے ہیں۔ آپ نے اپنے وزیروں‘ مشیروں اور کف گیروں سے کہا ہے کہ وہ اپوزیشن کی کرپشن نمایاں کریں۔ کرپشن تو خود ہی نمایاں ہو جاتی ہے کون سا محکمہ ہے جہاں رشوت کے بغیر کام ہوتا ہے ریٹ بڑھ گئے ہیں آپ کے ساتھی اپنا اپنا حصہ لے کر اڑ چکے۔ آخری بات یہی کہ خان صاحب آپ قوم کو ریلیف دے دیں اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ آپ کسی کو چھوڑیں یا نہ چھوڑیں غریب بے چارے آپ کو چھوڑ چکے۔ وہ تو ماتم کناں ہیں ہائے ہائے منیر نیازی نے کہا تھا: پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا دل کو حسن والوں کی سادگی نہ گئی