سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کے خلاف نیب کافی وقت سے تحقیق کر رہی تھی مگر ان کو اسلام آباد سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ہوٹل میں سکون سے سوئے ہوئے تھے۔ وہ لمحہ ان کے لیے ناقابل یقین تھا جب ان کے کمرے میں نیب کے افسران داخل ہوئے اور انہیں کہنے لگے کہ آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہوگا۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر نے اپنا ہاتھ موبائل کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’’میں اپنے گھر والوں کو اطلاع کروں‘‘ مگر نیب کے افسران سے ان کا موبائل اٹھا کر آف کردیا اور ان سے بولے کہ ’’ہمیں بہت افسوس ہے مگر آپ یہ نہیں کرسکتے۔ آپ کی گرفتاری کی خبر آپ کے اہل خانہ کو مل جائے گی‘‘ نیب کی طرف سے دیا جانے والا یہ جواب متوقع نہیں تھا۔ مگر آغا سراج درانی صرف حکومت کی عیاشی کا تجربہ نہیں رکھتے انہیں اسیری کا تجربہ بھی حاصل ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ جب وردی والے سلیوٹ مارنے کے بجائے بازو میں ہاتھ ڈالتے ہیں تو پھر ان سے تعاون کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں رہتا ۔ سراج درانی ایک سینئر سیاستدان ہیں۔ انہوں نے نیب اہلکاروں سے الجھنا ٹھیک نہ سمجھا۔انہوں نے تعاون کرنے والے انداز میں ان سے کہا کہ ’’کیا میں کپڑے تبدیل کرسکتا ہوں؟‘‘ نیب اہلکاروں نے کہا ’’ضرور‘‘ اس طرح آغا سراج درانی نیا سوٹ پہن کر نیب والوں کے ساتھ نکل پڑے۔جب آغا سراج درانی کے گرفتار ہونے کی خبر سابق صدر آصف زرداری کو موصول ہوئی تو انہوں نے اپنے قریبی حلقے سے کہا کہ ’’درانی صاحب کی گرفتاری میری گرفتاری کے لیے دستک ہے‘‘ جو لوگ اقتداری محل میں رہتے ہیں ان کو پتہ نہیں ہوتا کہ کب ان کے شان و شوکت کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ اس لیے آصف زرداری نے فوری طور پر پریس کانفرنس منعقد کرنے کے احکامات جاری کیے۔ ان کو یہ احساس بھی تھا کہ یہ ان کی آخری پریس کانفرنس بھی ہوسکتی ہے۔ وہ پریس کانفرنس عجلت میں بلائی گئی اور اس پریس کانفرنس میں ان صحافیوں کو مدعو کیا گیا جو پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس پریس کانفرنس میں آصف زرداری نے سندھ کا رڈ کو کھل کر کھیلا۔ آصف زرداری نیب کے افسر عرفان منگی پر سیاسی حملہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’سنا ہے کہ سندھ کا کوئی منگی نیب میں ہے جو ہمارے لوگوں کو گرفتار کرواتا ہے‘‘ پھر آصف زرداری نے طنزیہ لہجے میں کہنے لگے کہ ’’ایسے کام اپنے ہی کرتے ہیں‘‘ حالانکہ آصف زرداری کے اس تبصرے کے بعد نیب نے عرفان منگی کے بارے میں یہ وضاحت بھی جاری کردی تھی کہ’’ سراج درانی کو گرفتار کرنے کے لیے عرفان منگی کو نہیں بلوایا گیا‘‘ مگر آصف زرداری کو حقائق سے دلچسپی نہیں تھی۔ ان کی نظر میں اہم کام سندھ کارڈ کو استعمال کرنا تھا۔ اس لیے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’آغا سراج درانی کو اسلام آباد سے گرفتار کرنے کا تاثر اچھا نہیں ہے۔ ان کو کراچی سے گرفتار بھی کیا جاسکتا تھا۔ آصف زرداری کراچی میں ہر عدالتی پیشی کے موقعے پر اپنے پارٹی ورکرز اور وزیروں مشیروں کو اس لیے لاتے ہیں تاکہ احتسابی ادارے ان کی گرفتاری پر امن امان کی صورتحال خراب ہونے کے امکان سے احتیاط کا مظاہرہ کریں۔ جب سے آصف زرداری کے خلاف احتساب کی رفتار تیز ہوئی ہے تب سے انہوں نے اسلام آباد آنا چھوڑ دیا ہے۔ اگر ان کا نام ای سی ایل میں نہ ہوتا تو وہ یقینی طور پر یہاں نہ ہوتے مگر ای سی ایل کے باعث وہ کراچی تک محدود رہنے کے لیے مجبور ہیں۔ آغا سراج درانی کی گرفتاری سے نیب کو کسی ردعمل کا خوف نہیں تھا۔ نیب نے ہر طرح سے معلوم کرلیا تھا کہ آغا سراج درانی کی گرفتاری کسی بڑے ردعمل کا باعث نہیں بنے گی۔ یہ ہی سبب تھا کہ جب آغا سراج درانی کے کراچی والے گھر پر نیب نے چھاپہ مارا اور سات گھنٹوں تک آغا سراج کے اہل خانہ سے کرپشن کے حوالے سے تفتیش کر رہے تھے تب آغا سراج درانی کے گھر والوں نے میڈیا اور سوشل میڈیا پر اپنے ساتھ زیادتی کی خبر چلادی اور آغا سراج درانی کے گھر پر عام لوگ نہیں آئے۔ ان کے گھر پر پیپلز پارٹی کے ورکر بھی نہیں آئے۔ ان کی حمایت کرنے کے لیے صرف پیپلز پارٹی کے وزیر آئے۔ مگر انہوں نے بھی درانی ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا۔ آغا سراج درانی کی گرفتاری کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل بن چکی تھی مگر سندھ کے لوگوں کی طرف سے ان کی گرفتاری پر احتجاج کرنے کا عالم یہ تھا کہ شکار پور کے اس چھوٹے سے شہر سے جہاں سے آغا سراج درانی نے ایک لاکھ کے قریب ووٹ لیے ‘ دس لوگ بھی احتجاج کرنے کے لیے نہیں نکلے۔ جب کہ ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ کراچی میں ان کے بنگلے پر رینجرز کی حفاظت میں نیب نے سات گھنٹے تک اہل خانہ سے تفتیش کی ہے۔ دیہی سندھ میں اس قسم کی صورتحال جذباتی ردعمل کا باعث بن سکتی ہے مگر شکارپور سے لیکر کراچی تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اس سے بھی پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ پیغام ملا کہ اگر وہ گرفتار بھی ہوجائیں تب بھی لوگ ان کی حمایت میں نہیں نکلیں گے۔ یہ پیغام پیپلز پارٹی کے ان وزیروں کے لیے پریشانی کا باعث ہے جن وزیروں پر نیب کی احتسابی پرچھائیں ہے۔ نیب کا احتسابی سایہ پیپلز پارٹی کے لیے زیادہ پریشانی کا باعث اس لیے بھی ہے کہ ان کو عوامی حمایت نہ ملنے کا یقین ہے۔ آغا سراج درانی کو قریب سے جاننے والے اس بات سے آگاہ ہیں کہ خاندانی طور پر آغا سراج درانی آصف علی زرداری سے زیادہ پختہ پس منظر رکھتے ہیں۔ وہ سیاسی طور پر وزیر بھی رہے ہیں اور سندھ اسمبلی کے اس اسپیکر شپ کی کرسی پر بھی براجمان رہے ہیں جن پر ان کے بزرگ بیٹھتے رہے ہیں اور شکارپور میں ان کا اچھا خاصہ ذاتی اور خاندانی اثر بھی ہے مگر اس کے باوجود آغا سراج درانی کی گرفتاری کے خلاف ان کی برادری اور ان کی پارٹی مل کر بھی دوچار سو افراد سے زیادہ لوگوں کواحتجاج کے لیے جمع نہ کرپائی۔ ایسی صورتحال میں پیپلز پارٹی کے لیے خوف کی فضا پیدا ہونا فطری بات ہے۔ پیپلز پارٹی کے حکمران حلقوں میں یہ خوف بھی اپنے پر پھیلائے چل رہا ہے کہ اگر اسمبلی کا اسپیکر گرفتار ہوسکتا ہے اور آصف زرداری بار بار جیل کو اپنا دوسرا گھر کہتے ہوئے گرفتاری کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ کے چیف منسٹر پربھی قانون کے احتسابی سائے لہراتے ہیں اور اگروہ بھی قانون کی گرفت میں آگئے تو پھر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم رہنا بیحد مشکل ہوجائے گا۔ ایسی صورتحال میں ان اسیروں کے لیے جیل کی سختی ناقابل برداشت اور ان کی آزادی آسان نہ رہے گی۔ یہ باتیں پیپلز پارٹی کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔ آصف زرداری کا موقف تھا کہ وہ گرفتار ہونے کی صورت میں زیادہ پاپولر ہوجائیں گے مگر اس عمر میں ان کی صحت جیل کی سختی برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ اگر وہ جیل جاتے ہیں تو باہر اب کوئی بینظیر بھٹو نہیں ہے جو ان کے خاندان کو بھی سنبھالے اور پارٹی کو بھی متحد اور منظم رکھے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو اپنی ان کمزوریوں کا گہرائی سے احساس ہے مگر وہ اپنے زبان سے ان حقیقتوں کا اظہار نہیں کرسکتی۔ پیپلز پارٹی آن دی ریکارڈ تو یہ کہتی ہے کہ جیل ان کی پارٹی کو نئی جلا دے گی مگر آف دی ریکارڈ پیپلز پارٹی کے قریبی حلقوں میں اس پریشانی کا تذکرہ ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اب جیل کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی کو کرپشن کے دیمک نے اندر سے مکمل طور پر چاٹ لیا ہے۔ اپنی داخلی کمزوری کے باعث پیپلز پارٹی بہت پریشان ہے۔ آغا سراج درانی کی گرفتاری کا پیغام پیپلز پارٹی کی پریشانی میں اضافے کا باعث بن گیا ہے۔