ایک پرانی بات یاد آ رہی ہے۔ مشرف کو اقتدار سنبھالے ڈیڑھ دو سال ہو چکے تھے کہ اس نے پہلی بار ٹیلیویژن پر انٹرویو دینے کا فیصلہ کیا۔میں کراچی سے اسلام آباد پہنچا تو معلوم ہوا لئیق احمد اور نسیم زہرہ بھی مرے ساتھ اسی پینل کا حصہ ہوں گے جو یہ انٹرویو لے گا۔ اس کے ساتھ سامنے صحافیوں کی ایک کہکشاں سجی ہو گی۔ اس کہکشاں میں کون کون نہ تھے۔ ارشاد حقانی سے لے کر عبدالقادر حسن تک سب موجود تھے۔ ایک عجیب بندوبست تھا۔ مشرف ابتدائی کلمات کہہ چکے تو ہماری باری آئی۔ مشرف نے بار بار مختلف باتوں یا منصوبوں کا ذکر کیا۔ ساتھ وہ دو تین بار یہ بھی کہہ گئے کہ یہ کام پانچ سال میں پورا ہو سکتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ اسے چاہیں تو لائٹر وینLight Veiwمیں لے لیں چاہے سنجیدہ سمجھ لیں آپ جو بار بار پانچ سال کا ذکر کر رہے ہیں تو کہیں آپ پانچ سال رہنے کی منصوبہ بندی تو نہیں کر رہے۔ اس پر ایک زور دار قہقہہ پڑا‘۔ مشرف کچھ بھنا سے گئے۔ اس وقت یہی کہا جاتا تھا کہ حکومت جلد جمہوریت قائم کر کے چلی جائے گی۔ مرے سوال سے یہ لگا کہ اب یہ طے کر لیا گیا ہے کہ کم از کم پانچ سال کی مدت تو ضرور پوری کی جائے گی۔ مشرف نے اکھڑے اکھڑے لہجے میں اس کی پرزور تردید کی۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ تاہم ابھی ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے سرکاری طور پر اعلان کیا گیا کہ صدر مشرف پانچ سال کے عرصے کے لئے صدر رہیں گے۔ یہ بات میں نے اپنی ذہانت یا معاملہ فہمی جتانے کے لئے نہیں بیان کی۔ مقصد یہ ہے کہ بعض اوقات دل کی وہ بات اس طرح زبان سے ظاہر ہو جاتی ہے جسے چھپانا مقصود ہوتا ہے۔ ہمارے عمران خاں نے تو حد کر دی ہے۔ اس وقت جب کہ ان کی عرصہ اقتدار کا نصف گزر چکا ہے‘ یہ کہا جانے لگا تھا کہ انہیں کم از کم پانچ سال تو ضرور ملنا چاہئیں۔آخر باقیوں کو بھی تو ملے ہیں۔ یہ خیال جڑ پکڑ رہا تھا کہ چلو بہت غلطیاں کر لیں‘ مگر اس کی کارکردگی پر حتمی فیصلہ وہ پانچ سال پورے ہونے کے بعد ہی دیا جا سکتا ہے جس کا انہیں مینڈیٹ دیا گیا ہے۔ زرداری صاحب کے زمانے میں بھی ایسا ہوا تھا۔ یوسف رضا گیلانی تو بجلی اور توانائی کے مسئلے پر کہتے تھے کہ دیکھنا ہم پانچ سال میں یہ مسئلہ حل کر دیں گے۔ نواز شریف کے زمانے میں انہیں پانچ سال پورا کر لینے کا تو حوصلہ نہ ہوا مگر مسلم لیگ کی حکومت کو پانچ سال یوں دیے گئے کہ اسی پارٹی کے شاہد خاقان عباسی نے باقی مدت پوری کی۔ اب کہا جا رہا ہے عمران کو بھی یہ وقت ملنا چاہیے۔ جنہوں نے عمران سے بہت امیدیں باندھیں تھیں اور اب مایوس ہوتے جا رہے تھے‘ وہ بھی خدا کو تسلی دینے کے لئے کہنے لگے ہیں کہ ا نہیں وقت دو‘ پانچ سال کے بعد حتمی رائے بنانا۔ دوسری طرف ایک طبقہ فکر یہ بھی ہے جو کہتا ہے کہ اڑھائی سال میں ملک کی چولیں ہل گئی ہیں‘ پانچ سال رہ گئے تو جانے ملک کا کیا بنے۔ ایسے میں عمران کا یہ کہنا کہ جمہوریت کا المیہ یہ ہے کہ اسے پانچ سال کے اندر کچھ کر کے دکھانا پڑتا ہے جبکہ ملک کو ایک لمبی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ایسے میں انہیں چین کا نظام اچھا لگا ہے کہ دیکھو ہاں دس سال پہلے یہی پتا ہوتا ہے کہ آگے کیا ہونا ہے۔ مشرف تو دل کی بات چھپا رہا تھا‘ یہ چھپاتے بھی نہیں۔ تاہم وہ بڑے اعتماد سے ایسی بات کہہ جاتے ہیں جس کا اس بازار میں خریدار نہیں ہے۔ اگر آپ کو چین کا نظام پسند ہے تو صاف کہیے۔یہ تو درست ہے آپ کو جمہوریت اچھی نہیں لگ رہی‘ اس لئے آپ نے پانچ سال کے عرصہ کو المیہ قرار دیا۔یہ بھی دل کی بات زبان پر لانے کا معاملہ ہے۔ پھر صاف کہہ دیجیے ہمیں جمہوریت نہیں چاہیے۔چین کا نظام لانا ہے تو آپ کو ایک نظریہ اپنانا پڑے گا اور اسے عوام کے دلوں میں اتارنا ہو گا۔ پھر یک جماعتی نظام ہو گا۔ اس کے اور بہت تقاضے ہوں۔ آدھا پونا نظام نہیں چلا کرتا۔ ہمیں بھی حکم دیا گیا ہے کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو یہ نہیں کہ ایک بات کو اپنا لیا اور باقی کو چھوڑ دیا۔ یہ نہیں چلا کرتا۔بھٹو نے سوشلزم کی ایسی ہی مکس پلیٹ پیش کی تھی مگر ناکام رہی۔ جو لوگ اقتدار کو ایک شخص میں مرتکز کرنا چاہتے ہیں وہ عام طور پر پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام کی بات کرنے لگتے ہیں۔مگر ہمارے وزیر اعظم تو بہت آگے نکل گئے۔ایک زمانے میں کہیں میں نے لکھا تھا کہ آج کل ایشیائی ٹائیگر کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ وہاں کوئی آئیڈیل جمہوریت نہیں ہے۔ پھر چین سے ہماری دوستی ہے وہاں تو جمہوریت ہے ہی نہیں۔ ہمارے اردگرد بھی ہمارے دوست جمہوریت کے دلدادہ نہیں۔ ایسے میں کہیں پاکستان میں ایک طرح کا آمرانہ نظام رائج کرنے کا خیال پیدا ہونا نہ شروع ہو جائے۔ خود نواز شریف نے جب شریعت بل پیش کرنا چاہا تو اس پر بھی ایسے ہی اعتراض تھے کہ وہ اسلام کے نام پر شخصی آرا نہ نظام قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہمارا مسئلہ ہے جو عمران کی زبان پر آ گیا۔ ان کے لئے ریاست مدینہ کا مطلب بھی ایک فلاحی ریاست ہے۔ فلاحی ریاست کے حوالے سے وہ سکینڈ ے نیوین ممالک کے حوالے دیتے رہتے ہیں۔میں نے عرض کیا کہ مغرب کی فلاحی ریاست اسلامی فلاحی ریاست نہیں ہے۔ جو بداخلاقی آزادی کے نام پر ان ممالک میں رائج ہے اس کا ریاست مدینہ میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ بڑی مشکل سے یہ اس لائن سے ہٹے۔ پھر انہوں نے یہ لائن پکڑی کہ ریاست مدینہ کا مطلب ہے ایسی ریاست جس میں مشکلات برداشت کرنا پڑے۔یہ نہیں کہ آپ ایشیائی ٹائیگر بننے کے خواب دیکھنے لگیں۔ گویا ریاست مدینہ اور ایشیائی ٹائیگر کی خوشحالی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ پاکستان معاشی ترقی کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ باقی باتوں کا مجھے پتا نہیں مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ریاست مدینہ کی پہلی شرط کیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ریاست مدینہ کی بنیاد جس دستاویز پر ہے اسے میثاق مدینہ کہتے ہیں۔یہ وہ معاہدہ ہے جو حضورؐ نے مدینے کے یہودیوں اور دوسرے غیر مسلموں سے کیا۔ اسے بڑے فخر سے ہم دنیا کا پہلا تحریری آئین کہتے ہیں۔اس آئین یا میثاق کی پہلی شق یہ ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم(یہودی وغیرہ) امت واحدہ ہوں گے۔ ذرا تصور کیجیے جس ریاست کے آئین کی پہلی شق یہ ہو وہاں کیا اس بات کی گنجائش ہے کہ ہم سیاسی اختلافات کو اس حد تک بڑھا دیں کہ اپوزیشن اور حکومت ساتھ مل کر بھی نہ بیٹھ سکیں۔مدینے میں غیر مسلموں میں سے ہی نہیں منافقوں سے بھی ایک طرح کا براداشت کا رویہ اختیار کیا جاتا تھا۔لڑائی تب ہوئی جب انہوں نے اس آئین کی دوسری شقوں کو توڑا۔ اس پہلو پر میں بار بار لکھ چکا ہوں۔ منافقوں اور غیر مسلموں کے ساتھ نباہ کرنا بڑے دل گردے کا کام تھا مگر ریاست مدینہ کی بنیاد اسی اصول پر پڑی تھی نہ یہ کہ آتے ہی مار دھاڑ شروع ہو گئی ہو۔ اس تاریخ کا ذرا سنجیدہ مطالعہ کرنا ضروری ہے۔ اگر نیت درست ہو تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔ کیا افہام و تفہیم اور مصالحت کے اس رویے نے مدینے کی ریاست کو نقصان پہنچایا‘کیا اس نے کرپشن کو برداشت کیا۔میری بات بہت واضح ہے۔ اسے سمجھ لیا جائے تو اچھا ہو گا۔ معاملہ پانچ یا دس سال کا نہیں‘ایک اچھے آغاز کا ہے جو میثاق مدینہ تھا اور جس کی بنیاد پر ریاست کی دیواریں کھڑی ہوتی تھیں۔ اچھے آغاز کے ساتھ اچھے ساتھیوں کا ہے۔ٹیم ہی غلط بنی ہو تو آپ تا قیامت لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب نہیں لا سکتے۔ میرے خیال میں اتنا ہی کافی ہے۔