ایک منٹ کیا ہوتا ہے؟ایک منٹ یعنی 60 سیکنڈز۔ ایک سیکنڈ میں ایک ہزار ملی سیکنڈز ہوتے ہیں اور دس لاکھ مائیکرو سیکنڈز ۔یوں 60 سیکنڈز میں ہوئے 6 کروڑ مائیکرو سیکنڈز۔ مائیکرو سیکنڈ ایک لمحہ ہوتا ہے، لمحہ زندگی بدل سکتا ہے۔ لمحہ ایک خیال کا نام ہے جو مائیکرو سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں دماغ میں آتا ہے اور دھماکہ کر کے چلا جاتا ہے ۔یہ لمحہ زندگی بدل سکتا ہے ، زندگی لے سکتا ہے ، زندگی بخش سکتا ہے۔لمحہ خیال بن کر کسی آنکھ پر آ جائے تو اشارے سے کسی کی جان نکال دے۔رحمن فارس نے کہا، میں تو محفل سے اٹھنے والا تھا، پھر کسی آنکھ نے اشارہ کیا۔ لمحے کا وہ اشارہ کسی کو عمر بھر اپنے در پہ بیٹھنے پر مجبور کر سکتا ہے ۔ اور لمحے کی بے اعتنائی عمربھر کی رائگانی بن جاتی ہے۔ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار صحافیوں کو اپنی دوسالہ کارکردگی بتانے والی تقریب میں پچپن منٹ کی تاخیر سے پہنچے تو کسی نے برا نہیں مانا ۔ پچپن منٹ کیا ہوتے ہیں۔ پچپن منٹ مائیکرو سیکنڈ کے مقابلے میں تو بہت زیادہ ہیں مگر دو سال کے عرصے کے مقابلے میں بہت کم۔ جب بہت سے کام اور منصوبے شروع کرنے میں دو سال کی تاخیر ہو چکی ہو توبیچارے پچپن منٹوں کی کیا حیثیت؟ فیاض الحسن چوہان تقریب کی میزبانی کے فرائض سر انجام دے رہے تھے ۔ سٹیج سیکرٹری کے طور پہ پیش کیا گیا مواد کم بیش ویسا ہی تھا جیسا ن لیگ کے خلاف کی جانیوالی ان کی پریس کانفرنس میں ہوتا ہے۔ ہاشم جواں بخت کی تقریر البتہ حکومتی کارکردگی دکھانے کی ایک بہتر کوشش تھی لیکن اپنے پیچھے بہت سے سوال چھوڑ گئی جن کا ذکر آگے چل کر کرتے ہیں۔ وزیر اعلی پنجاب کی پندرہ صفحات پر مشتمل تقریر یوں روایتی تھی کہ لکھنے والے نے پرانے الفاظ کا ہی استعمال کیا تھا۔ وہی الفاظ جو نون لیگ کے زمانے میں بھی استعمال ہوتے تھے۔ تبدیلی والی حکومت کے وزیر اعلی کے لیے عوام کی خدمت ، ترقی کے دعووں ، مستقبل کے ارادوں اور خوشحالی کو تمام ضلعوں تک پہنچا دینے کے وعدوں جیسے جملوں پر مشتمل روایتی تقریر زیادہ موزوں نہ تھی۔یعنی تقریر ایسی روایتی تھی کہ کسی بھی حکومت کا وزیر اعلی اسے پڑھ سکتا تھا۔ پچپن منٹ کی تاخیر معنی نہیں رکھتی جب کئی ضروری اقدامات کے آغاز میں دو سال کی تاخیر ہو چکی ہو۔ کچھ چیزیں میں پہلے دو سالہ کارکردگی والی تینوں تقریوں میں ڈھونڈتا رہا اور پھر مہمان صحافیوں کو پیش کیے گئے اردو اور انگریزی کے کتابچوں میں۔ پہلے تو میں نے اردو کی پوری کتاب چھان ماری مجھے پولیس ریفارمز کے حوالے سے ایک لفظ نظر نہ آیا۔ وزیر اعلی کی تقریر میں ماڈل تھانوں کے قیام کا ذکر تھا اور بس۔ پولیس کے نظام میں تبدیلی میرے نزدیک معاشرے میں تبدیلی کی پہلی سیڑھی ہے ۔ تھانے سے انصاف کا نظام قائم ہوتا ہے اور انصاف تحریک انصاف کا موٹو ہے۔تھانوں میں تبدیلی کے دعوے کو تب تسلیم کیا جائے گا جب رشوت کلچر ختم ہو جائے اور پولیس میرٹ پہ مظلوم کو انصاف دلانے لگے ۔ حکومت کی طرف سے مرتب کی گئی اردو اور انگریزی کے پوری کتاب میں اس قسم کے نظام کے قیام کی کسی کوشش کا ذکر تک موجود نہیں ۔ میں حکومت کو بتانا چاہتا ہوں کہ اصلی والی پولیس ریفارمز لانے میں پچپن منٹ نہیں دو سال کی تاخیر ہو چکی ہے۔ تبدیلی کاغذوں میں نہیں زمین پر نظر آتی ہے ۔ تعلیم کے شعبے میں چودہ ارب روپے کے اضافے کا کریڈٹ حاصل کرنے کی کوشش ہی ایک کمزور سی حرکت ہے اور کارکردگی کی کتاب میں یہ لکھنے کا کیا مقصد ہے کہ دانش سکولوں میں چودہ سو سیٹوں کے لیے گیارہ ہزار بچوں نے درخواستیں جمع کرائی ہیں۔ کیا دانش سکولوں کا کریڈٹ بھی اسی حکومت کو دیں اور زیادہ درخواستیں موصول ہونے کا بھی؟ صرف سکولوں کا ہی نہیں یونیورسٹیز کا بھی یہی حال ہے ۔ پچھلے دنوں لاہور کی ایک بڑی یونیورسٹی کے بہت قابل وائس چانسلر سے ملاقات ہوئی توکف افسوس ملتے ہوئے انہوںنے کہا کہ بطور وائس چانسلر مجھے بھی معلوم نہیں کہ حکومت کی ایجوکیشن پالیسی کیا ہے ۔ آپ سوچیے جب وائس چانسلرز کو ہی معلوم نہیں تو کوئی نظام تعلیم میں بہتری کا دعوی کیسے کر سکتا ہے؟ شعبہ تعلیم میں ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات وہ قدم تھا جو تبدیلی کی حکومت کی جانب سے سب سے پہلے اٹھایا جانا چاہیے تھا۔ میں حکومت کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس شعبے میں اصلاحات کا عمل پچپن منٹ نہیں دو سال کی تاخیر کا شکار ہے ۔ تقریب سے واپس آنے کے بعد دو سالہ کارکردگی والی اردو اور انگریزی کتابوں کا میں نے تفصیل سے جائزہ لیا۔ یہ بیوروکریسی کی طرف سے تیار کردہ ایک روایتی دستاویز معلوم ہوتی ہے جس کے صضحات چھوٹے چھوٹے کارناموں سے بھرنے کی کوشش کی گئی ہے۔مثال کے طور پر صحت والے چیپٹر میں مختلف ہسپتالوں کے چھوٹے چھوٹے بلاکس میں ہونے والے مرمتی کام کا ذکر بھی کر دیا گیا ۔ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جو سال اور تاریخیں بدل کے کوئی بھی کبھی بھی شائع کر سکتا ہے۔کیونکہ خواہشات، دعوے اور وعدے تو ساری حکومتوںکے ایک جیسے ہوتے ہیں سو اس حکومت کے بھی ہیں۔ میں حکومت کو بتانا چاہتا ہوں کہ تبدیلی کا اصل عمل شروع ہونے میں دو سال کی تاخیر ہو چکی ہے ۔ میں حکومت کو بتانا چاہتا ہوں کہ پانچ سالہ مدت ایک ایک مائیکرو سیکنڈ کر کے کم ہو رہی ہے۔ پانچ سال کے بعد لوگ حکومت یا بیوروکریسی کی طرف سے مرتب کردہ کتابیں نہیں پڑھیں گے بلکہ زمین پہ کارکردگی دیکھیں گے۔ لوگ دیکھیں گے کہ تھانے میں اب رشوت دیے بغیر کام ہوتا ہے یا نہیں، لوگ دیکھیں گے کہ پرائیویٹ کی بجائے لوگ اب سرکاری سکولوں کا رخ کر رہے ہیں یا نہیں۔ دیکھنا ہو گا کہ سرکاری ہسپتالوں کے بارے میں آ واز خلق کیا کہتی ہے ، کارکردگی کا پیمانہ 2023 میں عوام نے طے کرنا ہے ۔ پانچ سالہ مدت میں سے دو سال گزر گئے ہیں ، اصل تبدیلی کا آغاز ہونے میں دو سال کی تاخیر ہو چکی ہے۔