روس اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات یکم مئی 1948 کو نیو یارک میں سوویت یونین کے اس وقت کے روسی اور پاکستانی وزرائے خارجہ کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے نتیجے میں قائم ہوئے۔ اس کے بعدجلد ہی ماسکو اور کراچی میں پاکستان اور سوویت یونین کے سفارت خانوں نے کام شروع کردیا۔سرد جنگ کے دور کی بین الاقوامی سیاست کی وجہ سے پاکستان اور سوویت یونین کے درمیان تعلقات میں اتار چڑھا ئوآیا۔ 1980 کی دہائی میں افغانستان میں ہونے والے ہنگامہ خیز اور مشکل واقعات، جن میں دونوں ممالک شامل تھے، سوویت یونین اور پاکستان کے تعلقات پر منفی تاثر چھوڑے بغیر نہ رہ سکے۔ 2003 میں سابق صدر پاکستان جنر ل پرویز مشرف نے روسی صدر کی دعوت پر روس کا ایک کامیاب سرکاری دورہ کیا جس میں دو طرفہ باہمی دلچسپی کے امور پر کامیاب بات چیت ہوئی اور بہت سے معاشی و تجارتی معاہدوں اور یاد داشتوں پر دستخط بھی ہوئے۔۔سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے 5نومبر2018کو چائنا انٹرنیشنل امپورٹ ایکسپو کے موقع پر روسی فیڈریشن کے وزیر اعظم دیمتری میدویدیف سے ملاقات کی۔ اس کے علاوہ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے دو بار ملاقات کی۔ پہلی ملاقات ستمبر 2018 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 73ویں اجلاس کے موقع پر نیویارک میں ہوئی تھی۔اس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی نے ماسکو میں 26 دسمبر 2018 کو روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے ملاقات کی۔ گزشتہ برس فروری میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے روس کا 3روزہ دورہ کیا۔عمران خان کے دورہ روس سے پہلے روس کا دورہ کرنے والے آخری پاکستانی وزیراعظم نواز شریف تھے جنہوں نے 1999 میں روس کا دورہ کیا تھا جب کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے 2011میں ماسکوکا دورہ کیا تھا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کا دورہ ماسکو بڑی اہمیت کا حامل سمجھا جارہا تھا ان کی روسی صدر ولاد یمیر پوتن سے ملاقات ہوئی ، اس ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوئوں پر بات چیت کی گئی۔ دونوں ملکوں کے درمیان توانائی، اقتصادی وتجارتی شعبوں میں تعاون کے فروغ پر گفتگو کی گئی۔عمران خان کے دورہ ماسکو کے دوران ہی روس نے یوکرین میں فوجی آپریشن کا آغازکردیا جبکہ پاکستان واپس جاتے ہی عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی جس کی وجہ سے عمران حکومت کا خاتمہ ہوگیا اور وہ دورہ ماسکو کے ثمرات سے محروم رہ گئی۔یوکرین میں روس کے فوجی آپریشن کے بعد روس نے بیشتر مغربی ممالک کو غیر دوست قرار دے کر تعلقات ختم کردیے ہیں۔اب روس ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا خواہاں ہے۔ روس کے یوکرین میں فوجی آپریشن سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت مسلسل بڑھ رہی تھی۔ روس میں پاکستان کی مصنوعات کاٹن، ٹیکسٹائل، چمڑا، چاول، پھل، آلات جراحی اور کھیلوں کے سامان کی مانگ میں دن بدن اضافہ ہورہا تھا۔جبکہ پاکستان، روس سے کھاد، ربڑ، ٹائر، کاغذ ، لوہا ، سٹیل اور مشینری وغیرہ درآمد کر رہاتھا لیکن روس پر مغربی پابندیوں اور پاکستان کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے پاکستان اور روس کے درمیان باہمی تجارت میں کمی واقع ہوئی ہے۔روس پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا خواہشمند ہے۔ روسی قونصلیٹ برائے سیاسی و معاشی امور دیمتری پیتروف نے کہا ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان تجارت کے بے پناہ مواقع موجود ہیں جبکہ روس کی مدد سے پاکستان معاشی بحران سے نکل سکتا ہے۔ روس کو انرجی کی سپر پاور کہا جاتا ہے کیونکہ روس کے پاس تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں، سعودی عرب کے بعد روس خام تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑاملک ہے۔ مغربی یورپ اپنی توانائی کی ضروریات کیلئے روس پر انحصار کرتا ہے۔ روس کے یوکرین میں فوجی آپریشن سے پہلے یورپی یونین کے رکن ممالک روس سے 22لاکھ بیرل یومیہ تیل اور 12لاکھ بیرل یومیہ دیگر پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرتے تھے۔یوکرین کے راستے مغربی ممالک کو روس کی جانب سے گیس کی بھاری سپلائی اس کے علاوہ ہے۔یوکرین میں فوجی آپریشن کی وجہ سے اب روس کو یورپی ممالک کی بجائے مشرقی ممالک سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے۔اس وقت چین اور بھارت اپنی بڑھتی ہوئی صنعتی ضروریات کیلئے روس کے تیل اور گیس کے بڑے خریدار کے طور پر موجود ہیں۔بھارت انتہائی سستے داموں روس سے پٹرولیم مصنوعات خرید رہا ہے۔ پاکستان کی موجودہ پی ڈی ایم کی حکومت نے بھی فیصلہ کیا کہ روس سے سستے داموں پٹرولیم مصنوعات خریدی جائیں۔ جس پروزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے نومبر 2022کو وفد کے ہمراہ ماسکو کا دورہ کیا۔اس کے بعد جنوری 2023 میں پاکستان اور روس کے درمیان خام تیل، پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی خریداری کے معاملے پر بات چیت کیلئے روسی وزیر توانائی کی سربراہی میں ایک 80 رکنی اعلی سطحی وفدپاکستان پہنچا اور پٹرولیم مصنوعات سمیت دیگر اہم معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔ رواں سال 30جنوری کو وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے دورہ ماسکو میں روس نے پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان کو توانائی کی قلت کا سامنا ہے، امیدہے کہ میرے روس کے دورے میں اس سلسلے میں مثبت پیش رفت ہوگی اور توقع ہے کہ دوسرے ممالک روس کے ساتھ باہمی تعلقات میں مداخلت نہیں کریںگے۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستا ن اور روس کے درمیان توانائی کی خریدوفروخت کے ایک جامع اورطویل المیعاد منصوبے پر عملدرآمد سے پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک منصوبے کو تقویت ملے گی۔اس لئے چین کی طرف سے پاکستان اور روس کے درمیان اس سمجھوتے پر یقینا خوشی کا اظہار کیا جائے گا۔چین ایک بڑی طاقت بن کر ابھر رہا ہے اور روس بھی بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے جبکہ پاکستان ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے لیکن یہ تینوں تن تنہا اس عدم توازن کے خلا کو پر نہیں کر سکتے اگرچہ تینوں مل کر کام کریں اور ایک بلاک کی شکل اختیار کر لیں تو یہ خلا پر ہوسکتا ہے اور یہ خطے میں امن قائم رکھنے کے لئے نہایت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔