بریگیڈئر صاحب اور میں ایک دوسرے کو اس وقت سے جانتے ہیںجب ہماری مسّیں بھی نہیں بھیگی تھیں۔ بذلہ سنج اور زندہ دل ۔ حیران کن حد تک نڈر اور راست گو۔ہیرے کی طرح بے داغ۔ کئی سالوں بعد باجوڑ ایجنسی جب ہمارے ہاتھوں سے تقریباََ نکل چکی تھی تو سفاک دہشت گردوں کے گھیرے میں آئے ہوئے دستوں کی قیادت کرنل صاحب کر رہے تھے۔ لرنل صاحب اور ان کے ساتھیوں نے جانیں ہتھیلیوں پر رکھیں اور کچھ ہی ہفتوں میںکایا پلٹ دی۔کچھ عرصہ گزرا تو ان کی تعیناتی باجوڑ سے کسی اور مقام پر ہو گئی ۔قبائلیوںکے دلوں میں مگر وہ ہمیشہ کے لئے بس کر رہ گے۔ دہشت گرد بھی انھیں لیکن نہیں بھولے تھے۔ کئی سالوں کے بعد جب ہم دونوں ایک بار پھر منگلا کور میں اکھٹے ہوئے تو وہ تب بھی دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ذکر ہوتا تو سگریٹ کا گہرا کش لے کر مسکرا دیتا۔ریٹائر منٹ کے بعد وہ سلامتی کے ایک اہم ادارے میں ذمہ داری انجام دے رہے تھے تو سپریم کورٹ کے حکم پر فوج کے دو نمائندے پاناما جے آئی ٹی میں شامل کئے گئے ۔ وہ ان دو ارکان میںسے ایک تھے ۔ پاناما جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والوں میں’ درویش کپتان‘ بھی شامل تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ جے آئی ٹی کے سوالوں کا جواب دینے کی بجائے’ درویش‘ اِ دھر اُدھر کی ہانکتا رہا۔اور کچھ نہ سوجھا تواس نے فوجی نمائندے سے اس کی یونٹ کا پوچھ لیا۔ ان کے بتانے پر درویش معنی خیز انداز میں بولا ’ see you‘۔’ درویش کپتان ‘وہ ان سے زندگی میں پہلی بار مل رہا تھا۔ فوجی حلقوں میںدرویش کپتان کا ذکر اکثر ازراہِ تفنّن ہی آتا ہے۔ یہی درویش کپتان مگر 18اکتوبر والے ہیجان انگیز دن ایک اہم ترین کردار بن گیا ۔ مزارِ قائد پر بے ہودہ مناظرجو دیکھے تو اس شخص پر پہلی بار مجھے بھی شدید غصہ آیا۔ میں فوج کا ترجمان نہیں ہوں اور یہ بھی نہیں جانتاکہ اس دن ادارے میں اس دل سوز واقعے پرکیا سوچ کارفرما تھی۔ یہ مگر جانتاہوں کہ ہم جیسوں میںہر سطح پراضطراب اور شدیدبے چینی پائی جاتی تھی۔ میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا پرہر خاص و عام کا غم و غصہ صاف جھلک رہا تھا۔ رات گئے مگر جلسے میں خاتون یا کسی اور کے چہرے پر ندامت کی کوئی جھلک نہ تھی۔معذرت تو دور کی بات افسوس تک کا اظہار نہ ہوا۔میلوں دور بیٹھے مگر میں سوچ رہا تھا کہ رینجرز والے کیوں خاموش ہیں۔ سویلین بالا دستی ، سندھ کی روائتی مہمان نوازی اور صوبائی خود مختاری کے علمبرداروں سے میں پیشگی معذرت کا طلب گار ہوں۔ مگر اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں مجھے کوئی عار نہیں کہ مزارِقائد کی بے حرمتی اور اس کے نتیجے میں پولیس کی طرف سے ایف آئی آر کاٹے جانے میں لیت ولعل پر، رینجرز کے جذبات میرے لئے قابلِ فہم ہیں۔ کئی دن گزر جانے کے بعدہو سکتا ہے آج میری سوچ قدرے مختلف ہو ،تاہم میرا اندازہ ہے کہ 18 اکتوبروالے دن کراچی میں اگر میں بھی سیکٹر کمانڈر ہوتا تو اس دن کے خاص ماحول میںشاید میرا ردِّ عمل بھی عہدوں سے ہٹائے جانے والے افسروں جیسا ہی ہوتا۔وہ لوگ جو یہ سمجھنے سے قاصر ہیںکہ دو فوجی افسر اپنے سینیئرز کی منشاء و تائید کے بغیر اتنا بڑا قدم کیسے اٹھا سکتے ہیں، وہ یقینا نہیں جانتے کہ افواجِ پاکستان میں قائدِ اعظم کی ذات کوکس قدر محبت اور احترام کا مقام حاصل ہے۔ افواجِ پاکستان کی مخاصمت میں پیش پیش حال ہی میں’جمہوریت پسند‘ ہو جانے والے عناصراپنی تاریخ کا آغاز تو اے پی سی کی حالیہ میٹنگ سے کرتے ہیں، مگر اداروں کی سیاسی مداخلت کا ذکر قائدِ اعظم کے72 سال قبل سٹاف کالج کوئٹہ میں فوجی افسروں سے خطاب سے شروع کرتے ہیں۔ وہ یقینا اس حقیقت سے واقف نہیں کہ نوزائیدہ مملکت کی مسلح افواج ،بابائے قوم کے دل کے کس قدر قریب تھیں۔ شدید بیماری اور نقاہت کے باوجود قیامِ پاکستان کے پہلے چند مہینوں میں آپ نے مادرِ ملّت کے ہمراہ کئی ایک فوجی یونٹوں اور تنصیبات کواپنے دوروں سے عزت بخشی۔نادر و نایاب تصاویر میں ہمارے قائد اکثر ان دوروں کے دوران مختلف رینکس کے افسروں کے ساتھ چائے کا کپ تھامے، سگار سلگائے، خوشگوار ماحول میں گفتگو کرتے یاچاک وچوبند فوجی دستوں کا معائنہ کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول وہ خوش قسمت ادارہ ہے کہ اپنی تشکیل کے فوراََ بعد منعقدہ پاسنگ آئو ٹ پریڈ پر جسے بابائے قوم کے ہاتھوں ’نشانِ پاکستان‘ یعنی پاکستان کا پرچم وصول کرنے کا اعزاز حاصل ہوا، جو آج بھی اپنی اصلی حالت میںاکیڈمی کے پاس محفوظ ہے۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی کی فسٹ پاک بٹالین کواُسی دن سے لے کر آج تک ’ Quid e Azam's own‘ کہلانے کا شرف حاصل ہے۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی سے اب تک فارغ التحصیل ہزاروں کیڈٹس عرصہ تربیت کے دوران فسٹ پاک کے عظیم الشان بٹالین میس کے اندر قدم رکھتے ہی سامنے دیوار پر لٹکی قائد کی قدِ آدم تصویر کو تن کر سیلیوٹ کرتے رہے ہیں۔کھانے کی میز پر اس کے بعد ہی بیٹھتے۔بظاہر معمولی سا عمل ہے، لیکن قائد کا احترام فوجی افسر کے خون میںروزِ اوّل سے دوڑنے لگتا ہے۔اگرچہ ’درویش کپتان‘ جیسی مستثنیات سے بہرحال انکار نہیں۔ یہ ایک حقیقت کہ قائد کے فرمودات کو ہم من الحیث القوم ملحوظِ خاطر نہ رکھ سکے۔سوال مگر یہ ہے کہ کیا قائداعظم نے اپنی زندگی میں بس ایک کوئٹہ کے سٹاف کالج میں ہی خطاب کیا تھا ؟فوجی افسروں کے لئے حلف کی پاسداری لازم ٹھہری ، عوامی عہدیداروں کے حلف کی پاسداری کا کیا ہوا؟کیا عوامی مناصب پر فائز ہونے والوں کو کھلی چھٹی دے دی گئی تھی کہ جتنا جی میں آئے قوم کا مال لوٹیں، ذخیرہ اندوزی کریں، ٹیکس چرائیں، منی لانڈرنگ کریں اورلوٹی گئی دولت سے بیرونِ ملک جائیدادیں بنائیں؟ اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود قائدکی شخصیت سے محبت اور احترام پوری قوم اور بالخصوص پاک افواج کے ہر ایک فرد کی سرشت میں شامل ہے۔ دو بریگیڈئیرز کے ردِّ عمل کو اعلیٰ عسکری قیادت سے جوڑنے، کرنل کو See you کہہ کرمرعوب کرنے اور اعلیٰ عسکری قیادت کو نام لے کر دبائو میں لانے کی کوششیں کرنے والے یقیناََ پاک فوج کے ادارہ جاتی مزاج اور اس کے افراد کی نفسیات سے واقفیت نہیں رکھتے۔ ہمیں امیدہے کہ پیپلز پارٹی مزارِ قائد کی بے حرمتی کے کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ نہیں تھی۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ واقعہ رونما ہوجانے کے بعد صوبائی حکومت عوامی غیض و غضب کا ٹھیک سے ادراک کرنے اور قانون کی عملداری میں یکسر ناکام رہی۔فوج نے اپنا وعدہ نبھا دیا ۔ نواز شریف صاحب کے Rejected والے ٹویٹ پر میجر جنرل آصف غفور ضرور کہیں بیٹھے مسکراتے ہوںگے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ اس باب میں سندھ حکومت اپنی ذمہ داریوں سے کیونکر نبرد آزما ہوتی ہے۔