استنبول میں غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں حکمران پارٹی نے ایک بہت بڑا مظاہرہ کیا۔ یورپی نیوز ایجنسیوں کے مطابق اس میں پانچ لاکھ سے زیادہ شریک ہوئے۔

ترکی پاکستان کی آدھی سے کم آبادی کا ملک ہے اور استنبول کم و بیش اتنا ہی بڑا شہر ہے جتنا کہ کراچی ہے۔ لاہور سے یہ ڈیڑھ گنا بڑا ہے۔ ذرا حساب لگائیے پاکستان میں فلسطینیوں (یا کشمیریوں) کے حق میں بڑے سے بڑا مظاہرہ بھی کتنے لوگوں کا ہو گا؟ ساری مذہبی جماعتیں مثلاً مجلس عمل ‘ اہلسنت محاذ‘ ملی کونسل وغیرہ اجتماعی مظاہرہ کریں تو بھی بیس پچیس ہزار سے زیادہ کا نہیں ہو گا۔ اس سے بڑے مظاہرے تو مراکش‘ سوڈان اور انڈونیشیا میں ہو جاتے ہیں حالانکہ اسن میں اسلام کا قلعہ کوئی بھی نہیں ہے‘ یہ اعزاز صرف ہمارے پاس ہے۔

اوپر ساری مذہبی جماعتیں بھی مل جائیں’’والی شرط پر بھی غور فرمائیں۔ فلسطین کشمیر شام کا مسئلہ ہو یا ناموس رسالت کا‘ افغانستان کی صورتحال ہو یا بوسنیا کی‘ مظاہرے کرنے کی ذمہ داری صرف مذہبی جماعتوں کی ہوا کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ‘ اے این پی‘ متحدہ کے تو یہ ’’ایشو‘‘ ہی نہیں ہیں۔ معاف کیجیے گا‘ ان ’’نان ریلجئس‘‘ جماعتوں میں آج کی قاف لیگ کا ذکر شامل نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتا۔ ہائوس آف گولڈ سمتھ فلسطینیوں کے حق میں کچھ نہیں سن سکتا۔ یہ خبر آپ نے دیکھ لی ہو گی کہ لندن کی میئر شپ کے جس زائنواسٹ امیدوار زیگ گولڈ سمتھ نے‘جن کی انتخابی مہم چلانے کے لیے ہمارے گریٹ گریٹ لاڈلا خان صاحب حج کا بنا بنایا پروگرام ’’سیٹ اسائڈ‘‘ کے لندن تشریف لے گئے تھے اور مسلمان امیدوار صادق خان کی مخالفت میں ڈٹ کر مہم چلائی تھی( جو بدقسمتی سے ناکام رہی) کہا ہے کہ فلسطینی اپنے قتل عام کے خود ذمہ دار ہیں۔ محترم زیک گولڈ سمتھ نے اپنے مبنی بر انصاف بیاں میں فرمایا کہ جو 50فلسطینی قتل ہوئے (در حقیقت ان کی تعداد 62تھی) وہ دہشت گرد تھے اور انہیں مارنے میں اسرائیل بالکل حق بجانب ہے۔

فلسطین کے بارے میں ہمارا ماضی کا ریکارڈ مختلف ہے اور اس کی وجوہ بھی مختلف ہیں۔ ماضی میں پیپلز پارٹی کے علاوہ وہ ساری جماعتیں جو خود کو بائیں بازو کا کہتی تھیں‘ باقاعدگی سے فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کیا کرتی تھیں۔ اس وقت آنجہانی سوویت یونین زندہ تھا اور فلسطینیوں کی قیادت ’’دبائیں بازو‘‘ کے پاس تھی۔ پھر سب کچھ بدل گیا اور فلسطینیوں کی قیادت ‘ غزہ کی حد تک اسلامسٹوں کے ہاتھ آ گئی اور یوں پیپلز پارٹی نے ’’فلسطین‘‘ کا نام اپنی سیاسی لغت سے ہی نکال دیا۔

بہرحال اگر اس بار مذہبی گروہ کوئی بڑا مظاہرہ کر ڈالیں تو اچھا ہے۔ کچھ تو اندازہ ہو کہ پاکستان اسلام کا کتنا بڑا قلعہ ہے۔

استنبول کے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ترک وزیر اعظم طیب اردگان نے کہا کہ اقوام متحدہ اس قتل عام میں برابر کا ذمہ دار ادارہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو ملک خاموش ہیں وہ بھی مجرم ہیں۔ ادھر ایک صدا آئی ہے کہ مسلمان اپنی اقوام متحدہ بنائیں اپنی اور عالمی اسلامی فوج تو بنا چکے‘ یہ بھی بنا لیں۔ لیکن پہلے اس کا سراغ لگائیں کہ وہ اسلامی فوج ہے کہاں۔ نہ برما میں نظر آتی ہے۔ نہ کشمیر میں‘ نہ شام میں نہ فلسطینی میں۔ سن ہے خود سعودی قیادت بھی اسے ڈھونڈ رہی ہے کہ بنائی تو ہمی نے تھی گھر گئی کہاں؟

٭٭٭٭٭

نواز شریف ے ’’غداری‘‘ اور ’’غداری‘‘ کی تحقیقات کے لیے کمشن بنانے کا جو مطالبہ کیا تھا۔ مجلس عمل نے اس کی تائید کر دی ہے۔ مجلس عمل کے رہنما لیاقت بلوچ نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ نواز شریف جس اجنبی مخلوق کا ذکر کر رہے ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں اوپن سیکرٹ ہے۔

مجلس عمل کو فی الحال ’’غداری‘‘ کا اجتماعی سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا گیا ہے اگرچہ اس میں شریک ایک جماعت اس حوالے سے پہلے ہی سند یافتہ ہے کیا مجلس عمل کی تائید نواز شریف کے مطالبے میں کچھ وزن پیدا کرے گی؟پاکستان میں غداروں کی دریافت 1950ء کی دہائی میں شروع ہو گئی تھی تمام کی فہرست بنائی جائے تو دنیا چونک اٹھے گی۔ اس ’’چونکاہٹ‘‘ کا تقاضا تو یہی ہے کہ اب کمشن بنا کر معاملہ فیصلہ کر دیا جائے ادھر آصف زرداری‘ جو گزشتہ ایک سال سے محب الوطن قرار پائے ہیں بھی اس کمشن کے مشروط حامی ہیں ان کی شرط ہے کہ کمشن کی تحقیقات ضیاء الحق دور سے شروع ہو۔

بھئی کہیں سے بھی شروع ہو‘ شروع تو ہو! آثار بتاتے ہیں کہ ایسا کمشن بننے ہی نہیں دیا جائے گا۔

٭٭٭٭٭

ایک سنجیدہ مزاج تجزیہ نگار نے ’’خدشہ‘‘ شاہر کیا ہے کہ نگران حکومت کے دور میں بہت طویل لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ شروع ہو گا۔ تجزیہ نگار نے اس کے نتیجے میں ملکی معیشت‘ صنعت اور زراعت کو پہنچنے والے شدید نقصان پر بھی پریشانی ظاہر کی ہے(نقصان تو عام (دہاڑی دار مزدور اور تاجر پیشہ لوگوں کا بھی بہت ہو گا۔

عرض ہے کہ وسیع تر مفاد کی خاطر کرب افزا ٹیکے لگانا ہی پڑتے ہیں۔ معالجین کا خیال ہے کہ اس نسخے کے استعمال ہی سے گمراہ ووٹروں کی اصلاح کا امکان پیدا ہو سکتا ے یعنی گھنگھور اندھیروں کے بیچ سے سحر پھوٹے گی۔

نسخہ بظاہر مہنگا ہے لیکن وسیع تر قومی فائدے کو دیکھیں تو بہت سستا ہے بھئی!

٭٭٭٭٭

روس نے ایران سے کہا ہے کہ وہ شام سے اپنی فوج واپس بلا لے۔ نہ صرف وہ بلکہ حزب اللہ بھی شام سے نکل جائے۔ روسی صدر پیوٹن نے اسرائیلی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد شام کے صدر بشار الاسد سے ملاقات کی اور کہا کہ تمام غیر ملکی فوجیں شام سے نکل جائیں۔

کچھ مبصرین یہ کہہ رہے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ روس نے یہ بات اسرائیل کے دبائو پر کہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک سال پہلے ہی یہ بات اخبارات میں آ چکی ہے کہ روس ایران کو شام میں مزید دیکھنا نہیں چاہتا۔ یہ عالمی سیاست ہے روس نے امریکہ کا دبائو بھی جھیلنا ہے اور اسرائیل سے دوستی بھی نبھانی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ روس شام میں اپنے مفاد کے لیے آیا ہے نہ کہ ایران کے۔ ایران والے یہ نہیں کہہ سکتے کہ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔

ادھر جمعہ کی شام ایک لطیفہ ہوا۔دمشق کے شمال میں وسطی شہر حما کے فوجی ایئر پورٹ کو بم دھماکوں سے اڑا دیا گیا۔ بشاری فوج کے 50افسر اور فوجی مارے گئے۔24گھنٹے تک شامی حکومت یہ طے کرنے میں لگی رہی کہ آخر ہوا کیا۔ کیا اسرائیل نے میزائل داغے؟

اگلی شام یہ عقدہ کھلا جب حریت پسند تنظیم سرایہ الجہاد نے بتایا کہ یہ گوریلا کارروائی اس نے کی۔ لطیفہ یہ ہے کہ بشار حکومت کا ’’نظام‘‘ اب یہ معلوم کرنے کے قابل بھی نہیں رہا کہ کون مار گیا‘ کہاں سے مار گیا۔