چار ارب نوے کروڑ ڈالر کی بھارت کو منتقلی کے حوالے سے نیب کی پریس ریلیز لوزبال تھی جس پر ماہر بلّے باز کی طرح میاں نواز شریف نے ہٹ لگانے کی کوشش کی مگر بلاّ ہوا میں گھما کر رہ گئے۔ یوں کہ اپنی پریس کانفرنس میں میاں نواز شریف ستر پیشیوں اور احتساب عدالت کی کارروائی کو لے بیٹھے۔ میاں صاحب کے وفادار ساتھیوں اور اندھے پیروکاروں کے سوا سب جانتے ہیں کہ احتساب عدالت میں کارروائی مروجہ قوانین اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق چل رہی ہے اور تاخیر کا سبب استغاثہ نہیں میاں صاحب کے وکیل ہیں۔ یحییٰ بختیار کی طرح جو کیس کو طوالت دے رہے ہیں اور گواہان استغاثہ پر جن کی طویل جرح سے ملزمان کو فائدہ پہنچنے کی اُمید کسی کو نظر نہیں آتی۔ بجا کہ نیب کو پریس ریلیز جاری کرنے سے قبل نتائج و عواقب کا اندازہ لگانا چاہیے تھا قومی اداروں اور اُن کے سربراہان کبھی یہ نہ بھولیں کہ مسلم لیگ (ن) کا سوشل و میڈیا سیل غیر معمولی طور پر فعال اور اُن کے وفادار بات کا بتنگڑ بنانے میں طاق ہیں کرپشن‘ منی لانڈرنگ‘ غلط بیانی اور غیر ملکی کمپنی میں ملازمت کے الزام میں نااہلی کو اقامہ کی سزا کا شاخسانہ قرار دینا اور سابق وزیر اعظم کو معصوم ثابت کرنا اس ٹولے کے ہنر کا شاہکار ہے تاہم ایک اخباری رپورٹ کی جانچ پڑتال کے حوالے سے پریس ریلیز کا اجرا ایسا جرم نہیں کہ میاں صاحب اور اُن کے حواری چیئرمین نیب پر چڑھ دوڑیں اور اس پریس ریلیز کی آڑ میں جسٹس (ر) جاوید اقبال کے استعفے کی دیرینہ آرزو پوری کرنے پر تُل جائیں۔ ممتاز صحافی ضیاء شاہد ایک ٹی وی پروگرام میں کہہ چکے ہیں کہ شریف برادران کے اہم پیامبر نے چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال کو اپنے منصب سے استعفے کے عوض صدر پاکستان منتخب کرانے کی پیشکش کی اور اس مقصد کے لیے معتبر ضمانتوں کے علاوہ خانہ کعبہ میں حجر اسود پر ہاتھ رکھ کر حلف کی یقین دہانی کرائی۔ گویا میاں صاحب اس وقت چیئرمین نیب سے چوبیس گھنٹے کے اندر استعفے دینے کا مطالبہ پریس ریلیز کی وجہ سے نہیں طے شدہ حکمت عملی کے تحت فرما رہے ہیں لیکن یہ سوچنے پر آمادہ نہیں کہ ملزم خواہ کتنا ہی طاقتور اور بارسوخ کیوں نہ ہو اُسے جج یا تفتیشی سے استعفیٰ طلب کرنے کا حق ہے نہ زیر سماعت مقدمات میں ٹھوس شواہد پیش کیے بغیر اپنے آپ کو معصوم عن الخطا قرار دینے کا اختیار۔ پریس کانفرنس میں میاں صاحب کا لہجہ ماضی کے کروفر کا آئینہ دار تھا جب وہ تمام اداروں اور با اختیار شخصیات کو ذاتی ملازم کی طرح مخاطب فرمایا کرتے تھے۔ یہ کہنا کہ چیئرمین چوبیس گھنٹے میں قوم سے معافی مانگ کر گھر چلے جائیں ایک ایسے شخص کو زیبا نہیں جس نے آج تک پانامہ سکینڈل پر معافی مانگی نہ پارلیمنٹ اور ٹی وی کے ذریعے قوم سے غلط بیانی پر ندامت محسوس کی اور نہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو باوقار شخص کے طور پر قبول کیا۔ چیئرمین نیب سے استعفے کا مطالبہ کر کے میاں صاحب نے اپنا موقف مزید کمزور کیا ہے چونکہ انہوں نے خود اور ان کے ساتھیوں میں سے کسی نے ماضی میں اپنی ہمالیہ جیسی غلطی پر بھی استعفیٰ دینا ‘درکنار شرمندہ ہونا گوارا نہیں کیا۔ وال سٹریٹ جنرل میں چھپنے والی سٹوری کی جانچ پڑتال پر سیخ پامیاں نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کو 2016ء میں امریکی اخبار اور ورلڈ بنک پر ہتک عزت کا دعویٰ کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہ ہوئی؟ اور آج تک انہوں نے پانامہ پیپرز کا انکشاف کرنے والے اداروں کو عدالتوں میں کیوں نہیں گھسیٹا ؟ میاںنواز شریف اور اُن کی صاحبزادی بلاناغہ سپریم کورٹ کے فاضل ججوں پر طعنہ زنی‘ فوج اور خفیہ اداروں پر الزام تراشی اور نیب پر سنگ باری کرتے ہیں کیا ان افراد اور اداروں کی کوئی عزت نہیں ؟جبکہ احتساب عدالت میں چلنے والے مقدمہ کے حوالے سے بھی وہ تواتر سے غلط بیانی کے مرتکب ہیں۔ پریس کانفرنس میں بھی میاں صاحب نے اپنی ستر پیشیوں کا رونا رویا اور مقدمے کی طوالت کو اپنی بے گناہی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جبکہ حقیقت بالکل برعکس ہے۔ میاں صاحب کے وکیل نے گزشتہ روز سپریم کورٹ میں احتساب عدالت کے لیے مزید تین ماہ کا وقت مانگا جس کا مطلب ہے کہ وہ اس مقدمے کو مزید تین ماہ تک کھینچنا چاہتے ہیں اور طوالت کو اپنے موکل کے لیے مفید سمجھتے ہیں۔ چیئرمین نیب کو متعصب کہہ کر میاں صاحب نے اپنا بغض ظاہر کیا ورنہ یہ معاملہ ایسا نہیں تھا جس پر دھواں دھار پریس کانفرنس کی ضرورت تھی‘ ایک پریس ریلیز سے بھی چیئرمین نیب کو مطعون کیا جا سکتا تھا۔ عربی میں کہتے ہیں اذا یئیس الانسان طال لسانہ‘ مایوسی میں انسان کی زبان دراز ہو جاتی ہے یہی معاملہ اس وقت موجودہ حکمران طبقے کا ہے۔ اکیلے میاں صاحب نہیں ان کے حواریوں کو بھی عدالتی فیصلوں‘ نیب میں چلنے والی انکوائریوں اور ممکنہ انتخابی نتائج کا علم ہے۔ بہت سے الیکٹ ایبلز چلے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔ وزیروں‘مشیروں اور موجودہ ارکان اسمبلی کی اکثریت جب ووٹروں کا سامنا کرے گی تو اسے آٹے دال کا بھائو معلوم ہو گا۔ جو نااہلی سے بچ گئے وہ نیب کا چارہ بنیں گے اور باقی ماندہ عوامی غیظ و غضب کا شکار۔ ملک اور معاشرے سے گند صاف کرنے کی موجودہ مہم رکنے والی نہیں اور کرپٹ عناصر کا بچنا ناممکن نہ سہی مشکل ضرور ہے۔ میاں صاحب اگر نیب کی پریس ریلیز پر اس قدر حساسیت دکھانے کے بجائے اصغر خان کیس پر اظہار خیال کرتے۔ زبانی کلامی ہی سہی‘ ندامت کا تاثر دیتے اور شاہد خاقان عباسی سے کہتے کہ وہ عدالتی احکامات کے مطابق اسی ہفتے کابینہ کا خصوصی اجلاس بلا کر اس معاملے پر پیش رفت کریں تو ان کی بات میں وزن ہوتا اور خفیہ ایجنسیوں یا خلائی مخلوق کے حوالے سے اُن کے بیانیے کو تقویت ملتی مگر اس بارے میں ان کی زبان گنگ ہے اور اُن کا چہرہ سپاٹ۔ محض چیئرمین نیب پر گرجنے برسنے سے کوئی یہ کیسے باور کر سکتا ہے کہ موصوف واقعی اداروں اور معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں‘تلافی مافات پر آمادہ ہیں۔اور ماضی کی غلطیاں سدھارنے کا عزم رکھتے ہیں۔ پریس کانفرنس دل کے پھپھولے پھوڑنے کے سوا کچھ نہ تھی‘ پھوکا فائر ۔رہی سہی کسر شام کو ٹی وی ٹاک شوز میں ہونے والی گفتگو نے نکال دی‘ مسلم لیگ (ن) کی ساری محنت اکارت گئی۔