مکرم ی !پچھلے دو ہفتوں سے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر بجلی کے بلوں میں پی ٹی وی فیس میں اضافے کی خبر نے ادھم مچائے رکھا اور یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ حکومت نے بجلی کے بلوں میں پی ٹی وی فیس 35روپے سے بڑھا کر 100 روپے کر دی ہے لیکن یہ ایک تجویز تھی جسے کابینہ کی میٹنگ میں وزیر اعظم نے مسترد کر دیا اور افواہوں کا ریلا خود بخود دم توڑ گیا ۔ بغیر تحقیق کے خبر اڑائی جاتی رہی کہ اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جا چکا ہے مہنگائی میں پسی عوام میں غصے کی لہر دوڑ پڑی اور حکومت مخالف جماعتوں نے اس خبر پر خوب پراپیگنڈا کیا اور سوشل میڈیا پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا لیکن حقیقت اس کے بر عکس تھی یہ محض ایک تجویز تھی جسے موخر کر دیا گیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان ہمارے قومی اثاثے ہیں یہ ہماری نظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں ہماری روایات کے امین ہیں ہمیں ان اداروں کو مظبوط بنانا ہے تا کہ نوجوان نسل کو قومی تشخص اور معاشرتی اقدار سے روشناس کروایا جا سکے روایات ہمیشہ نسل در نسل منتقل کی جاتی ہیں نہ کہ ختم کی جاتی ہیں۔افسوس کہ ان سرکاری نشریاتی اداروں کے نا قدین نے انہی اداروں کی جڑیں کاٹنا شروع کر دی ہیں جن سے ان کی صلاحیتیں پروان چڑھی ہیںجن اداروں سے انہوں نے سیکھا ہے انہی کی تذلیل کر رہے ہیںجب پی ٹی وی کا ذکر ہو تو کہتے ہیں پی ٹی وی کون دیکھتا ہے اور ریڈیو پاکستان کا ذکر ہو تو کہتے ہیں کہ ریڈیو کون سنتا ہے ۔وزیر اعظم پاکستان نے فی الحال پی ٹی وی کی فیس میں مجوزہ اضافے کو موخر کر دیا ہے شاید ادارے میں دیگر اصلاحات کی جائیں گی یا فیس میں معمولی اضافہ کیا جائے گا اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہو گا بہتر یہی ہو گا کہ پی ٹی وی انتظامیہ کو بزنس پلان ترتیب دینے کے احکامات دیئے جائیں اور ادارے کی آمدنی بڑھانے کیلئے دیگر ذرائع کو استعمال میں لایا جائے اور ادارے کو خود اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل بنانے میں مدد کی جائے اور عوام پر مذید بوجھ نہ ڈالا جائے۔عوام کو چاہیے کہ وہ قومی نشریاتی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے عناصر کی افواہوں پر کان نہ دھریں اور اپنے قومی اداروں کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔ ( ذیشان حیدر)