اسلام آباد( خصوصی نیوز رپورٹر) پبلک اکائونٹس کمیٹی میں انکشاف ہو اہے کہ پی ایس ایل کی فرنچائزز کم قیمت پر نیلام کرنے سے پی سی بی کو 11 لاکھ ڈالر سالانہ کا نقصان ہوا ۔اسلام آباد یونائیٹڈ، پشاور زلمی اور کوئٹہ کی فرنچائز کم قیمت پر نیلام کی گئیں جبکہ پی ایس ایل ون اور ٹو میں 2 ارب77 کروڑروپے کی مالی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں، غیرذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنے پر کمیٹی چیئرمین پی سی بی پر برہم ہوگئی۔گزشتہ روز پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کااجلاس چیئرمین راناتنویرحسین کی زیرصدارت ہوا۔ اجلاس میں پاکستان سپر لیگ ون، ٹو کی خصوصی آڈٹ رپورٹس زیرغورآئیں۔ پی اے سی چیئرمین نے کہا کہ ایسے آڈٹ اعتراضات جو نہیں نمٹائے جاسکتے ، انہیں ایوان میں پیش کر دیا جائے کیونکہ ان سے متعلقہ لوگ یا تو وفات پا چکے ہیں یا نہیں مل رہے ۔ آڈیٹر جنرل نے ان کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ خاص رقم کی حد مقرر کرکے ڈی اے سی کی سطح پر نمٹائے جائیں۔ پرنسپل اکائونٹنگ افسران اپنی برادری کا ساتھ دیتے ہیں۔ سیکرٹری آئی پی سی غفران میمن نے کہا کہ ہمیں پی سی بی کی طرف سے ورکنگ پیپر نہیں ملا، اس لئے ڈی اے سی نہیں ہو سکی ۔ چیئرمین پی سی بی احسان مانی نے کہا ہمیں علم نہیں تھا کہ ہمیں ان سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا ،یہ معاملات مجھ سے پہلے کے ہیں ۔ پی اے سی ارکان نے انکی بات پر برہمی کا اظہار کیا ۔ پی اے سی چیئرمین نے کہا کہ چیئرمین پی سی بی ادارے کے سربراہ ہیں ،انہیں ایک ایک پائی کا حساب دینا پڑیگا۔ رکن کمیٹی اقبال محمد خا ن نے کہا کہ پی ایس ایل 3 اور4 کا آڈٹ رہنا باقی ہے ،پی ایس ایل فرنچائزز نے پی سی بی پر ہائیکورٹ میں کیس بھی کردیا ،آڈٹ حکام نے بتایاکہ پی ایس ایل 4 کا آڈٹ کورونا وائرس کے باعث تاخیر کا شکار ہوا ،چیئرمین پی اے سی نے کہاکہ کرکٹ بورڈ کی خصوصی آڈٹ رپورٹ کیوں نہیں آئی۔ چیئرمین پی سی بی نے کہامیں صرف نگرانی کرتا ہوں، ادارہ کے ہر معاملہ میں مداخلت نہیں کرتا۔پی اے سی نے چیئرمین پی سی بی کے جواب پربرہمی کا اظہار کیااور کہاآپ ذمہ دار ہیں، غیر ذمہ دارانہ باتیں نہ کریں۔پی اے سی نے سیکرٹری آئی پی سی کو ہدایت کی کہ پی ایس ایل میں بے قاعدگیوں کی ایک ماہ میں مکمل تحقیقات کرکے ذمہ داروں کا تعین کرنے کی رپورٹ پیش کی جائے ۔انکوائری رپورٹ آنے کے بعد آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیں گے ۔