گزشتہ روز مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ہونے والے اجلاس میں پی ڈی ایم کی طرف سے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن کہلاتاہے بشرطیکہ یہ اختلاف اور احتجاج آئین اور قانون کے دائرے میں رہے۔ ماضی میں ہماری سیاسی جماعتوں نے جمہوری حکومتوں کو گرانے کے لیے غیر جمہوری حربے استعمال کئے ۔ اس حوالے سے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے رویے تاریخ کا حصہ ہیں۔سیاسی معاملات کو ذاتی دشمنی تک لے جانے والی ان دونوں جماعتوں کو بالآخر میثاق جمہوریت پر متفق ہونا پڑا اور جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے 2008ء اور 2013ء کی منتخب حکومتوں کو اپنی مدت پوری کرنے دی گئی۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی طرف سے تحریک انصاف کی حکومت کو قومی مفاد میں بھرپور تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی گئی مگر بعد میں پارلیمان سے باہر جماعتوں کی کوششوں اور نیب کی تحقیقات کی وسعت نے ایک بار پھردونوں جماعتوں کو مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں حکومت گرانے کے لیے متحد کردیا۔ حکومت کو مستعفی ہونے کے الٹی میٹم کے ساتھ لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے استعفوں کی دھمکیاں دی گئیں مگر خوش آئند امر یہ ہے کہ گزشتہ روز دونوں جماعتوں نے اسمبلیوں سے استعفیٰ کے بجائے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے اور جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بہتر ہوگا حکومت اور اپوزیشن معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کریں تاکہ عوامی حکومت اپنی مدت پوری کر سکے اور جمہوری عمل مضبوط ہو۔