ایک سچا اور مخلص استاد کسی بھی معاشرے کے لیے ناگزیر ہے‘استاد ہی وہ عظیم ہستی ہے جو نہ صرف نسلوں کی تربیت کرتا ہے بلکہ اُن کے خوابوں کو حقیقت کا روپ بھی عطاکرتا ہے۔بھٹکے ہوئوں کو راستہ دکھانا‘یاسیت کے اندھیروںمیں امید کی کرن کی روشن کرنا‘ٹوٹے ہوئوں کو جوڑنا اور نامکمل کو مکمل کرنے کا کام بھی استاد ہی کرتا ہے۔استاد ہی وہ ہستی ہے جو بنجر ذہنوں میں سوال کی فصل اُگاتا ہے‘اسے اپنے علم سے سیراب کرتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ اسی فصل سے ایک دنیا مستفید ؟آپ ترقی یافتہ قوموں سے پوچھیں‘جن کی زندگیوں میں والدین اور اولاد سے بڑھ کر استاد کی اہمیت ہوتی ہے‘جو استاد کے ایک اشارے پر اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں‘ایسے ملکوں سے استاد کا احترام پوچھیں جن کے کرنسی نوٹوں پر استاد کی تصویر ہے‘ ایسے ملک جہاں استاد کے لیے عدالت کا قاضی اور پنچایت کا سرپنچ بھی کھڑا ہو جاتا ہے ‘ایسے ملک جہاں کسی استاد پر ایف آئی آر نہیں کٹ سکتی‘جہاں استاد تھانے اور کچہری میں نہیں بلائے جاتے‘جہاں استاد کے لیے مارکیٹوں،بینکوں اور ٹرین اسٹیشنز پر پروٹوکول ہوتا ہے‘ایسے ملک جہاں ججز‘پارلیمان کے ممبران اور بیوروکریٹس کی طرح استاد کی گاڑی کے لیے بھی ایک خاص نمبر پلیٹ ایشو ہوتی ہے تاکہ ہمارے استاد کو سفر کے دوران کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔استاد کیا ہے؟ان قوموں سے پوچھیں جن کا ماضی،حال اور مستقبل تابناک ہے کیوں کہ ان قوموں نے استاد کا احترام بیوروکریٹس اور ججز سے بھی زیادہ کیا ہوتا ہے‘ایسی قوموں پر کبھی زوال نہیں آیا کرتا۔ پاکستان،جہاں استاد ہونا ایک جرم بنتا جارہا ہے‘ذہنی کسمپرسی کا شکار یہ معاشرہ جو استاد کو چوتھے یا پانچویں درجے کا شہری سمجھتا ہے‘یہاں کی سرکار بھی استاد کو عزت و احترام دینے کی بجائے اسے اتنا مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آئے روز سڑکوں پر نکل رہا ہے‘اسے بتانا پڑتا ہے کہ جناب عالی! آپ ججز‘فوجی افسران‘سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کو مراعات دے سکتے ہیں تو استاد کو کیوں نہیں؟کیا استاد کے بغیر کوئی کامیابی ممکن ہے؟ ججز ہوں یا سیاستدان، فوجی افسران ہوں یا بیورو کریٹس، سب استاد کے ہاتھوں سے گزر کر آئے ہیں مگر جب مراعات اور سہولیات کی باری آتی ہے‘ استاد سب سے پیچھے کھڑا ہوتا ہے،ایسا کیوں؟ اس وقت بھی پاکستان میں کنٹریکٹ پر کام کرنے والے اساتذہ کی اوسط تنخواہ تیس سے چالیس ہزار ہے‘ہزاروں کی تعداد میں اساتذہ ڈیلی ویجز پر کام کر رہے ہیں جن کی اوسط تنخواہ بیس سے پچیس یا تیس ہزار بن رہی ہے،کیا اتنی تنخواہ میں گزارا ممکن ہے؟سرکاری یا نیم سرکاری اداروں میں کام کرنے والی اساتذہ کہاں کھڑے ہیں؟ پنجاب ایجوکیشنل اندوومنٹ فنڈ کے تحت کام کرنے والے اساتذہ کی تنخواہیں کیا ہیں اور کیسے ملتی ہیں؟پرائیویٹ تعلیمی ادارے جو خود کو برانڈ ڈکہتے ہیں‘وہاں اساتذہ کو کسی ذہنی اذیت سے گزارا جاتا ہے اور انھیں بات بات پہ کیسے ٹارچر کیا جاتا ہے‘کیا سرکار نے ان کے بارے میں سوچا یا کسی بھی طرح کی قانون سازی کی ؟ایک استاد جب کسی نجی تعلیمی ادارے یا پھر سیمی گورنمنٹ کے کسی ادارے میں کنٹریکٹ پر بیس 25 سال خدمات سرانجام دینے کے بعد رخصت ہوتا ہے‘وہ کہاں کھڑا ہوتا ہے؟ کبھی سرکار نے سوچا؟ پاکستان میں سرکاری ملازمتیں نہ ہونے کے برابر ہیں‘سرکاری و نجی جامعات ہر سال لاکھوں فارغ التحصیل مارکیٹ کو دے رہی ہیں‘ وہ سب نوکریوں کے لیے کہاں جائیں؟ ستر فیصد نوجوان نجی کمپنیوں یا اداروں کا رخ کرتے ہیں اور وہاں جا کر انھیں جس اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ناقابلِ بیان ہے۔اس سے بڑی دکھ کی بات یہ ہے کہ پرائیویٹ ملازمین کے لیے بنائی جانے والے پالیسی فائلوں کی نذر ہو چکی‘کوئی فرم یا ادارہ نہ اسے ماننے کو تیار ہے اور اگر کوئی ملازم پرائیویٹ پالیسی کی بات کرتا ہے‘اسے کھڑے کھڑے رخصت کر دیا جاتا ہے۔ایسا کیوں ہے؟بات صرف استاد کی نہیں ہر پرائیویٹ ملازم کی ہے‘استاد کا دکھ اس لیے زیادہ ہے کہ وہ قوموں کی قسمت لکھ رہا ہوتا ہے‘جب اس کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کیا جائے کہ تدریسی زندگی میں اس کے اپنے بچے دو وقت کی روٹی کو ترسیں‘وہ بے چارہ کہاں جائے اور کس کو دکھ سنائے؟برانڈڈ ادارے اور سرکاری ادارے جہاں اساتذہ کنٹریکٹ پر کام کرتے ہیں‘انھیں رحم کیوں نہیں آتا؟کیا ان کے اپنے بچے یا اولاد نہیں؟کیا وہ استاد کی عظمت اور مقام سے لاعلم ہیں ؟وہ جن کرسیوں پر بیٹھے ہیں‘وہ بھی استاد کی دی ہوئی ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ استاد کی بددعا کبھی رد نہیں ہوتی۔مجھے انتہائی دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں استاد سے زیادہ ایک سرکاری کلرک کی عزت ہے‘پاکستانی معاشرے کا استاد اپنی تنخواہ سے ساری زندگی اپنا گھر تک نہیں بنا سکتا‘ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اتنا ہی پیسہ ملتا ہے جس سے یا تو استاد بچوں کی شادیاں کرے یا پھر اپنا پانچ مرلے کاگھر بنائے۔اس کے برعکس استاد کے کندھوں پر بیٹھ کر سرکاری مراعات لینے والے‘پروٹوکولز انجوائے کرنے والے‘سفارشوں سے کرسیاں ہتھیانے والے‘کہاں سے کہاں پہنچ گئے مگر استاد وہاں ہی کھڑا ہے۔ سرکاری اساتذہ پھر بھی کچھ حاصل کر لیتے ہیں مگر پرائیویٹ استاد‘کنٹریکٹ پر کام کرنے والا استاد‘ڈیلی ویجز پر کام کرنے والا استاد‘عارضی اسامیوں پر کام کرنے والا استاد‘یہ سب کہاں جائیں؟شاید ان کی کوئی حیثیت نہیں۔تعلیم پر قابض مافیا جو ایک عرصے سے استاد کا استحصال کر رہا ہے‘ان کے بارے میں سرکار کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا‘پاکستان بھر کے پرائیویٹ اساتذہ کو مل بیٹھنا ہوگا‘اب عدالت سے رجوع کرنا ہوگا کہ پرائیوٹ ملازمین کے لیے بنائی جانے والی پالیسی پر سختی سے عمل کروایا جائے‘اس مافیا کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے جس نے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے استاد کے منہ سے نوالہ چھینا۔