امن ،انسانیت اور دین کے دشمنوں نے ایک بارپھر ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا۔اب کی بار اس کمیونٹی کے وہ قابل رحم کان کنوں شہید کردیئے گئے جنہوں نے اپنے اہل وعیال کا پیٹ پالنے کی خاطراپنے گھر سے میلوں دور زمیں کی تہہ میں اپنی زندگیاں گزارنے کا رسک لیاہواتھا۔تین جنوری کومچھ کے علاقے میں گیارہ کان کنوں کو اغوا کرنے کے بعد ان کے ہاتھ پشت پر باندھ کراس بے دردی کے ساتھ کچھ کو گولیاں مارکراور کچھ تہہ تیغ کرکے شہید کردیئے گئے کہ انسانیت شرما گئی۔ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی بہت سے گھرانے اجڑ گئے، بے شماربچے یتیم اور عورتوں بیوہ ہو گئیں۔ حسب معمول اس مرتبہ پھرملک کے وزیراعظم، صدر، وزرائے اعلی اور گورنرزصاحباں کی طرف سے ان کے ترجمانوں نے مذمتی بیانات جاری کر دیئے ۔ کسی نے دہائی دیتے ہوئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ’’ دہشت گرد کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں اور ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹ کر دم لیں گے‘‘۔کسی نے پھر سے عہد کرنے کی ٹھان لی ہے کہ’’ دہشتگرد انسانیت کے دشمن ہیں اور ملک وقوم کو مزید دہشتگردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔مچھ میں کان کنوں کے قتل کے خلاف مغربی بائی پاس دھرنا چھٹے روز بھی جاری ہے۔ کوئٹہ شہر میں منفی 10 ڈگری سینٹی گریڈمیں جاری دھرنے میں مجلس وحد المسلمین کے رہنما ،کارکنان، ہزارہ کمیونٹی، لواحقین اور خواتین و بچے شریک ہیں۔ دھرنے میں سانحہ مچھ میں جاں بحق کان کنوں کی میتیں بھی سڑک پر رکھی ہوئی ہیں۔دھرنے کے شرکا کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی آمد تک دھرنا جاری رہے گا، وزیراعظم کی آمد تک میتوں کی تدفین بھی نہیں کی جائے گی۔ مصیبت کی اس گھڑی میں اس وقت ہزارہ برادری کے لوگوں کا مطالبہ یہ ہے کہ ان کے دھرنے میں کم ازکم وزیراعظم تو آئے جنہیں وہ اپنے مطالبات پیش کریں ۔لیکن حکومت نے بڑا تیر یہ ماراکہ اس غمزدہ برادری کے پاس پہلے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد بھیجا ۔ دھرنا ختم نہیں ہوا توبعدمیں زلفی بخاری کو جہازمیں روانہ کردیا جس نے لفظی یقین دہائیاں تو دیں لیکن اسلام آباد پہنچنے کے بعدانہوں نے وزیراعظم صاحب کوابھی تک کوئٹہ آنے پر راضی نہیں کیاہے۔ شہداء میں ایک معصوم طالبہ معصومہ یعقوب علی کااکلوتا بھائی محمد صادق اور چار دیگر رشتہ دار بھی شامل تھے۔ ٹھٹھرتی سردی میں سڑک پر پڑے جنازے کے ساتھ کھڑی معصومہ نے کیا دل ہلانے والی باتیں کہی جو بے حس حکمرانوں کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہی تو ہیں، معصومہ کہی رہی تھیں کہ ’’کربلا کا منظر اگر کسی نے دیکھنا ہے تو وہ میرے خاندان کو دیکھ لیں جس میں جنازہ کو کندھا دینے والا کوئی مرد نہیں رہا۔اس کے بعد ہم چھ بہنوں نے فیصلہ ہم اپنے بھائی اور رشتہ داروں کے جنازے خود اٹھانے کا فیصلہ کیاہے۔معصومہ کا کہناتھا کہ میں مدنی ریاست کا راگ الاپنے والوں سے سوال کرنا چاہتی ہوں کہ یہ کیسی مدنی ریاست ہے جس میں دن دہاڑے معصوم خاندانوں کے افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیاجاتا ہے جس کے بعدمیڈیا پر تعزیتی بیانات کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو رہا ہیــ،اگرتو یہ واقعی انصاف کی ریاست ہے، مسلمانوںاور مدینہ کی ریاست ہے توہمارے شہداء کے قاتلوںکو فی الفور قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ــ‘‘ سچ بات یہ ہے کہ صوبے میںاس محنت کش برادری کے اندر موت کا کھیل نوے کی دہائی سے بھی پہلے شروع ہواتھا جو دوہزار اکیس میں بھی بدستور جاری ہے۔ یہ غالباً1992 ء کی بات ہے کہ اپنے پیاروں کے جنازے اٹھا اٹھا کر تھک جانے والے عبدالقیوم چنگیزی نے ایک انٹرویو کے دوران حکومت کو پیشکش کی کہ ویسے بھی ریاست ہم لوگوں کو تحفظ دلوانہیں سکتی، یوں یہ ہماری برادری کے منقولہ اور غیرمنقولہ جائیدادیں بھی ہم سے چھین کراسے بیچ دیں اور ان پیسوں کے عوض ایک بحری جہاز خرید کر اس میں لاکھوں ہزاروں کو بٹھا کر سمندر بُرد کردیںتاک حکومت کی اس دردِ سر سے ہمیشہ کے لیے جان چھوٹ جائے‘‘۔ عجیب سہل طریقہ ہمارے کرم فرماوئوں نے قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کایہ بھی ڈھونڈاہے کہ ایسے سانحات کے پیچھے بہت جلدانہیں انڈیا اور افغانستان کے جاسوسی اداروں افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کاہاتھ تو بہت جلد نظرآجاتاہے لیکن موت بانٹنے والوں کو گرفتار کرنے میں وہ بے بس رہتے ہیں۔سوال یہ نہیں کہ دہشتگرد اور انتہا پسندکیوں دہشتگردی سے بازنہیں آرہے ہیں بلکہ بنیادی سوال یہ ہے کہ ریاست دودہائیوں سے اس عفریت سے آخر نپٹ کیوں نہیں پا رہی ؟ دوہزار سولہ میںپشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ڈیڑھ سو فرشتوں جیسے بچوں کے قتل عام کے بعدحکومت نے بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان بنایا۔ اگراس منصوبے پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد ہوا ہوتا تو انسانیت کے دشمن کہاں سے برآمد ہوتے ہیں ؟یہ ہیں وہ سوالات جو اس وقت ہرکس وناکس کے ذہن میں اٹھ رہے ہیں لیکن ان سوالات کا جواب دینے والا کوئی نہیں ۔المیہ تو یہ بھی ہے کہ دہشتگردی کے نہ تھمنے والے حملوں کے خلاف اگر کوئی حکو مت کے تغافل پر نکتہ چینی کرتا ہے تو وہ ملک کا غدار اور این ڈی ایس اور را کا یار ٹھہرجاتاہے ۔اسی طرح میڈیا میں جو صحافی اس اندھیر نگری کے بارے میں بولنے کی جسارت کرتاہے تواس بے چارے کا حشر بھی یہ قوم دیکھ چکی ہے ۔اس سانحے کے بعدپھر کیاہوگا؟ بس وہی ہوگا جو آٹھ اگست کے سانحے کے ہفتہ دس دن بعد ہوا تھا۔ شہر میں معمولات زندگی پھر سے بحال ہونا شروع ہو جائیںگے اور خاکم بدہن لوگ ایک اور سانحے تک اپنے اپنے کاموں میں لگ جائیں ۔زیادہ سے زیادہ یہ حکومت بھی معمول کی طرح اس مرتبہ بھی سانحہ آٹھ اگست (وکلاء برادری کا قتل عام) کے سانحہ کی طرز پرایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے گی ۔البتہ یہ پھر الگ بات ہے کہ پہلے کی طرح اس کی رپورٹ آنے کے بعد اس کے اندر بھی کیڑے نکالے جائیں گے۔