پی ٹی وی ملتان جو کہ سرائیکی وسیب کے لوگوں نے طویل جدوجہد کے ذریعے بنوایا ، کی حالت روز بروز ناگفتہ بہ ہوتی جا رہی ہے ۔ پی ٹی وی ملتان کے فنڈز نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ڈرامہ و دیگر پروگراموں کی ریکارڈنگ عرصہ سے معطل ہے ۔ وسیب کے شاعر ، ادیب ، دانشور اور آرٹسٹوں کو اپنے فن کے اظہار کے مواقع نہیں مل رہے ۔ پی ٹی وی کی حالت دیکھ کر ہر طرف تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ وسیب کے آرٹسٹوں نے 31 دسمبر 2019ء کو ساؤنڈایکٹ اور پی ٹی وی و ریڈیو پاکستان ملتان کی ناگفتہ بہ حالت اور فنڈز کی کمی کے خلاف مظاہرے کا اعلان کر رکھا ہے۔ پی ٹی وی ملتان کے کیمرے برسوں پہلے لاہور گئے ، آج تک واپس نہیں آئے اور شنید ہے کہ پی ٹی وی اسلام آباد کے افسران بالا کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی وی ملتان سے بقایا کیمرے بھی واپس منگوا لئے جائیں کہ مستقبل قریب میں یہ سنٹر بند ہونے والا ہے ۔ صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی وی انتظامیہ ملتان کی غفلت کے باعث ملتان میں پروگراموں کی ریکارڈنگ کا سلسلہ گزشتہ 6 ماہ سے بند ہے جبکہ پہلے سے ریکارڈ کئے گئے پروگراموں کے واجبات کی ادائیگی بھی نہ کی گئی ہے جس کے باعث ملتان سمیت وسیب سے تعلق رکھنے والے فنکاروں میں مایوسی پھیل گئی ہے ، پی ٹی وی افسران گھر بیٹھے پر کشش تنخواہیں اور مراعات وصول کر رہے ہیں ۔ افسران کی عدم دلچسپی کے باعث پی ٹی وی کی بلڈنگ ویران جبکہ سٹوڈیو اور پروگراموں کی ریکارڈنگ کے لئے کروڑوں روپے مالیت کی مشینری خراب ہونے پر ملتان پی ٹی وی منصوبہ ختم ہونے کاخطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ افسران کی ناقص پالیسی کے تحت مقامی ٹرانسمیشن کے لئے پروگراموں کی ریکارڈنگ کو بھی بند کر دیا گیا ہے جس سے ملتان پی ٹی وی منصوبہ عملاً غیر فعال ہو چکا ہے۔ جنرل منیجر خالد محمود اور فنانس منیجر خالد عمر کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور وہ مہینے میں صرف 8سے 10 روز ملتان آتے ہیں اور تنخواہ کی وصولی کے بعد راولپنڈی واپس چلے جاتے ہیں۔ میپکو کا ریکارڈ گواہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے لوگ ہر ماہ بجلی بلوں کے ذریعے 12 کروڑ روپے سے زائد پی ٹی وی کو دے رہے ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے بدلے کیا مل رہا ہے ۔ پی ٹی وی نے کوئٹہ سے بولان سنٹر بنایا ہواہے، جو کہ رات دن علاقائی نشریات دیتا ہے ۔کیا پی ٹی وی ملتان علاقائی نشریات نہیں دے سکتا ؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف میڈیا کے ذریعے بر سر اقتدار آئی لیکن اس دور میں سب سے زیادہ نقصان میڈیا کا ہوا ۔ موجودہ حکومت بچت کی بات کرتی ہے لیکن حالت یہ ہے کہ اسلام آباد میں ڈائریکٹر فنانس وسیم پرویز چند ماہ قبل ریٹائر ہوئے ، ان کی مدت ملازمت میں توسیع کرکے پونے چار لاکھ روپے ماہانہ پر دوبارہ رکھ لیا گیا جبکہ پی ٹی وی کے پنشنر ایک عرصے سے در بدر ہور ہے ہیں ، اور ملازمین کو میڈیکل الاؤنس بھی نہیں مل رہے ۔ وسیب کے لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا تمام سہولتیں اور مراعات صرف پی ٹی وی اسلام آباد کے لئے ہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ خطہ کے فنکاروں کے پر زور مطالبہ پر پرویز مشرف کے دور میں مارچ 2008ء میں ریڈیو ملتان کی بلڈنگ میں پی ٹی وی ملتان ٹرانسمیشن کا آغاز ہوا جبکہ پی ٹی وی ملتان سٹیشن کی نئی بلڈنگ کا افتتاح دسمبر 2011ء میں اس وقت وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کیا۔ ملتان پی ٹی وی کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ مشینری و آلات فراہم کئے گئے جو قابل استعمال نہ ہونے سے ناکارہ ہو چکے ہیں۔ پی ٹی وی ملتان کی موجودہ صورتحال پر سماجی، سیاسی، آرٹسٹ حلقوں نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور وسیب سے تعلق رکھنے والے وزراء اور اراکین اسمبلی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس اہم مسئلے پر توجہ دیں ۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ کے پاس پہلے بھی وزارت اطلاعات کا منصب رہا ، اب بھی مشیر اطلاعات بنیں تو ایک درخواست بھیجی اور استدعا کی کہ پی ٹی وی ملتان سنٹر کی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔ آپ توجہ دیں۔ میں نے لکھا کہ پی ٹی وی ملتان کے سٹاف کیلئے کالونی منظور شدہ ہے ۔ بیسیوں درخواستوں کے باوجود اس طرف توجہ نہیں دی گئی۔ رہائش گاہوں کی سہولت نہ ہونے کے باعث کوئی ملتان آنے کو تیار نہیں ۔ پی ٹی وی ملتان کو ایسے جی ایم کی ضرورت ہے جو سرائیکی وسیب کی تہذیب ‘ ثقافت اور جغرافیہ سے واقفیت رکھتا ہو ۔ جس کے دل میں سرائیکی ماں بولی کی محبت ہو ۔ تھوڑا عرصہ کیلئے عظیم سرائیکی شاعر محترمہ ثریا ملتانیکر کی صاحبزادی راحت ملتانیکر پی ٹی وی ملتان کی جی ایم بنیں تو پی ٹی وی میں انقلاب آ گیا ۔ شاعروں ‘ ادیبوں اور گلوکاروں کو اپنے فن کے اظہار کے نہ صرف مواقع ملے ‘ بلکہ ان کی مالی ضرورتیں بھی پوری ہوئیں۔ لاہور سے یا کسی دوسرے علاقے سے درآمد شدہ جی ایم تو محض ہفتے میں ایک آدھ دن حاضری لگوانے آتے ہیں ‘ ان کو اس خطے کی پروموشن سے کیا غرض ؟ سٹاف کی مسلسل کمی ہے ۔ ہماری اور تو کوئی سنتا نہیں ‘ اس لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ وہ پی ٹی وی ملتان کے مسئلے کا بھی از خود نوٹس لیں کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پی ٹی وی بجلی بلوں کے ساتھ میپکو کے ذریعے آٹھ سے دس کروڑ روپیہ ہر ماہ سرائیکی وسیب کے غریبوں سے سالہا سال سے وصول کرتا آ رہا ہے۔ پاکستان ٹیلیویژن کا آغاز 26 نومبر 1964 ء کو ہوا۔سالگرہ کے موقع پر پی ٹی وی کے تمام سنٹروں کو دولہن کی طرح سجایا گیا ۔ تمام سنٹروں پر کیک کاٹے گئے اور تمام سنٹروں سے پاکستان میں بولی جانیوالی زبانوں میں گیت اور نغمات نشر کئے گئے ۔ پی ٹی وی نے نیشنل ہوک اپ پر تمام پروگرام براہ راست دکھائے ۔ سپیشل ٹرانسمیشن میں پی ٹی وی ہوم کوئٹہ ، پشاور، اسلام آباد، لاہور ، مظفر آباد اور کراچی سنٹر سب موجود تھے ، اگر موجود نہیں تھا تو ملتان پی ٹی وی سنٹر۔ سرائیکی وسیب کے کروڑوں افراد خصوصاً وہ دیہات جہاں کیبل نہیں اور وہاں پی ٹی وی کے علاوہ کوئی دوسرا چینل نظر نہیں آتا، کے دل پر کیا گزری ، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ یہ وہی عمل تھا جب متحدہ پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان کے بنگالیوں سے یہی سلوک ہوتا تو وہ غصے سے اپنے دانت جھنیپ لیتے اور پھر وہ وقت آیا جس پاکستان کو انہوں نے بڑی قربانیوں کے ساتھ بنوایا تھا ،خود ہی توڑ دیا ۔ اس سے ثابت ہوا کہ محرومی ، حق تلفی اور نا انصافی سے صرف دلوں میں دراڑہیں ہی نہیں آتیں ، جغرافیے بھی بدل جاتے ہیں ۔ کیا حکمران اس پر سنجیدگی سے غور کر کے سرائیکی وسیب کے مسئلے حل کریں گے؟