بورڈ میں تبدیلی کی ہوا کیا چلی ساتھ چٹکلے بھی چھوڑے جا رہے ہیں۔مسلسل دو تین دن سے ٹیسٹ ٹیم کے کپتان کے بارے میں خبریں پڑھنے کو مل رہی ہیںٹیسٹ ٹیم کی کپتانی کے لیے شان مسعود اور اسد شفیق میں مقابلہ جاری ہے۔ٹیسٹ ٹیم میں سابق کپتان اظہر علی بھی شامل ہیں جو کہ مصباح الحق اور یونس خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد سب سے سینئر پلیئر ہیں اسد شفیق اور شان مسعود سے زیادہ تجربہ کار پلیئر کو نظر انداز کرنا پی سی بی کی پسند نا پسند اور اقرباپروری کو ظاہرکرتاہے۔ اسد شفیق کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ ٹیسٹ میچز میں اچھا کھیل پیش کر رہے ہیں لیکن اسکے برعکس شان مسعود کی پرفارمنس تسلی بخش نہیں ہے وہ اکثر ٹیم سے ڈراپ اور ان ہوتے رہتے ہیں اور جس پلیئر کی کارکردگی ایسی ہو کہ جو مسلسل ٹیم میں ان اور آئوٹ ہو رہا ہو ایسے پلیئر کا ٹیم کے کپتان کے لیے نامزد ہونا خاص طور پر اقرباپروری کی علامت ہے ۔انضمام جب سے چیف سلیکٹر بنے ہر پلیئر کوئی نہ کوئی شکایت ضرور میڈیا پے لیے پھرتا رہا ہے۔چاہے وہ فواد عالم ہو ،عابد علی، اظہر علی کی ریٹائرمنٹ ہو ۔ورلڈ کپ میں ٹیم کی کارکردگی کے بعد جب بورڈ میں تبدیلی کی ہوا چلی تو انضمام صاحب خود استعفیٰ دے کر چلتے بنے۔ میڈیا تفصیلات کے مطابق انہیں چیف سلیکٹر کی مد میںجو تنخواہ ملی وہ تقریبا چھ کروڑ روپے بنتی ہے اور اگر کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو بالکل صفر ہے۔ اظہر علی چیمپئنز ٹرافی کی وننگ ٹیم میں شامل تھے اور فائنل میں انہوں نے ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن انضمام صاحب نے جب سلیکٹرشپ سنبھالی تو آتے ساتھ ہی ٹیم میں امام الحق کو شامل کیا اور اظہرعلی کو موقع نہ دیا جس پروہ دلبرداشتہ ہو کرون ڈے کرکٹ سے رٹیائر ہو گئے امام الحق نے اچھی کارکردگی کے ساتھ بری کارکردگی بھی دکھائی لیکن وہ ابھی تک ون ڈے ٹیم میں شامل ہیں ۔ یہاں بات ٹیسٹ ٹیم کے کپتان کی ہو رہی ہے تو میں اظہر علی کو کپتان بنانے کے حق میں ہوں نا کہ اسد شفیق اور شان مسعود میں سے کسی کو کپتان بنایا جائے۔ کارکردگی کی بنا پر اسد شفیق کو نائب کپتان کی ذمہ داری دی جا سکتی ہے۔ (عاصم غفور، لاہور)