ایک طرف قوم کو کورونا نے مار دیا ہے ، دوسری طرف حکومت کے کورونا جیسے اقدامات غریب طبقات کیلئے عذاب کا باعث ہیں ۔ حکومت بجلی بل کے ساتھ ہر ماہ جبری طور پر 35 روپے ٹی وی ٹیکس وصول کر رہی ہے اور یہ ٹیکس ان سے بھی وصول کیا جا رہا ہے جو پی ٹی وی نہیں دیکھتے اور ان سے بھی وصول ہو رہا ہے جن غریب گھروں میں ٹی وی سیٹ سرے سے موجود ہی نہیں ۔ وزیراعظم عمران خان جب بر سر اقتدار نہیں تھے تو ان کے خطاب کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں وہ پی ٹی وی کے خلاف دھواں دھار تقریر کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی وی ٹیکس کی مد میں جو اربوں روپیہ ہر سال غریبوں سے وصول کیا جاتا ہے یہ پی ٹی وی کے افسران یا حکومت کے باپ کا نہیں یہ غریب عوام کا پیسہ ہے اور غریبوں کو اس کا بینیفٹ ملنا چاہئے۔ عمران خان بر سر اقتدار آئے ہیں تو چاہئے تو یہ تھا کہ جبری وصولی کا خاتمہ کیا جاتا ،مگر ٹیکس میں اضافہ کیا جا رہاہے اور اضافہ بھی پانچ دس روپے یا پانچ دس فیصد نہیں بلکہ دو سو فیصد ہو رہا ہے جو کہ غریبوں پر بہت بڑا ظلم ہے ۔ وہ غریب جو بجلی کا مہنگا بل مشکل سے ادا کر سکتے ہیں ، ان پر سو روپے کا ناروا بوجھ کی نہ تو آئین اجازت دیتا ہے اور نہ ہی اسلام ۔ ریاست مدینہ کی بات کرنے والے عمران خان کو غریبوں پر رحم کرنا چاہئے اور غلط فیصلہ فوری واپس لینا چاہئے ۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ پی ٹی وی کی بیورو کریسی نے یہ فیصلہ لوٹ مار کو جاری رکھنے کیلئے کیا ہے ، سابق چیئرمین عطا الحق قاسمی کے دور میں 27 کروڑ روپے کی کرپشن کی ریکوری ابھی تک نہیں ہوئی ۔ موجودہ حکومت بچت کی بات کرتی ہے تو پی ٹی وی پر بچت کی حالت یہ ہے کہ نالائق ترین افسران کو بھی بھاری تنخواہیں دی جا رہی ہیں ، تفصیل اس طرح ہے کہ ہیڈ آف ایچ آر 14 لاکھ روپے ماہانہ ، ہیڈ آف انجینئرنگ 14 لاکھ روپے ، ہیڈ آف نیوز 9 لاکھ ، ہیڈ آف کرنٹ افیئر 9 لاکھ ، اسی طرح ایم ڈی کی مراعات بھی 15 لاکھ سے زیادہ اور چیئرمین کی 20 لاکھ کے لگ بھگ ہیں ۔ پی ٹی وی نے چند ماہ قبل ایک چیف فنانشل آفیسر رکھا گیا تھا ، غالباً اس کا نام عثمان باجوہ تھا ، انہوں نے محض ڈیڑھ ماہ کے عرصے میں استعفیٰ دے دیا کہ پی ٹی وی میں اندھیر نگری مچی ہوئی ہے ، پاکستان کے غریب عوام کے ٹیکس سے حاصل ہونے والے اربوں روپے وہ افسران اڑا رہے ہیں ، جن کا اگر کوئی کردار ہے تو پی ٹی وی کی تباہی کا ہے۔ مگر غریب ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن تک نہیں مل رہی ۔ ایم ڈی پی ٹی وی عامر منظور، جو کہ دوہری شہریت رکھتے ہیں ، کا یہ بات عذر گناہ بد تر از گناہ کے مترادف ہے کہ ٹی وی لائسنس ٹیکس دیکھنے کی نہیں بلکہ ٹی وی سیٹ رکھنے کی ہے ۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ گھر میں ٹی وی سیٹ کے علاوہ دیگر اشیاء بھی ہوتی ہیں ، کیا ان سب پر ٹیکس لگے گا؟ اسلام آباد میں بیٹھی ہوئی بیورو کریسی کو غریبوں کے مسائل کا علم نہیں ، بھاری تنخواہیں وصول کرنے والوں نے کبھی ہمارے علاقے میں آ کر مسائل جاننے کی کوشش ہی نہیں کی ۔پی ٹی وی ملتان جو کہ وسیب کے لوگوں نے طویل جدوجہد کے ذریعے بنوایا ، کی حالت روز بروز ناگفتہ بہ ہوتی جا رہی ہے ۔ پی ٹی وی ملتان کے فنڈز نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ڈرامہ و دیگر پروگراموں کی ریکارڈنگ عرصہ سے معطل ہے ۔ وسیب کے شاعر ، ادیب ، دانشور اور آرٹسٹوں کو اپنے فن کے اظہار کے مواقع نہیں مل رہے ۔ پی ٹی وی کی حالت دیکھ کر ہر طرف تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ وسیب کے آرٹسٹوں نے پچھلے دنوں کو ساؤنڈایکٹ اور پی ٹی وی و ریڈیو پاکستان ملتان کی ناگفتہ بہ حالت اور فنڈز کی کمی کے خلاف مظاہرے کئے۔ پی ٹی وی ملتان کے کیمرے برسوں پہلے لاہور گئے ، آج تک واپس نہیں آئے۔ صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی وی انتظامیہ ملتان کی غفلت کے باعث ملتان میں پروگراموں کی ریکارڈنگ کا سلسلہ گزشتہ دو سال سے بند ہے جبکہ پہلے سے ریکارڈ کئے گئے پروگراموں کے واجبات کی ادائیگی بھی نہ کی گئی ہے جس کے باعث ملتان سمیت وسیب سے تعلق رکھنے والے فنکاروں میں مایوسی پھیل گئی ہے ، پی ٹی وی افسران گھر بیٹھے پر کشش تنخواہیں اور مراعات وصول کر رہے ہیں ۔ افسران کی عدم دلچسپی کے باعث پی ٹی وی کی بلڈنگ ویران جبکہ سٹوڈیو اور پروگراموں کی ریکارڈنگ کے لئے کروڑوں روپے مالیت کی مشینری خراب ہونے پر ملتان پی ٹی وی منصوبہ ختم ہونے کاخطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ افسران کی ناقص پالیسی کے تحت مقامی ٹرانسمیشن کے لئے پروگراموں کی ریکارڈنگ کو بھی بند کر دیا گیا ہے جس سے ملتان پی ٹی وی منصوبہ عملاً غیر فعال ہو چکا ہے۔ میپکو کا ریکارڈ گواہ ہے کہ وسیب کے لوگ ہر ماہ بجلی بلوں کے ذریعے 12 کروڑ روپے سے زائد پی ٹی وی کو دے رہے ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے بدلے کیا مل رہا ہے ۔ پی ٹی وی نے کوئٹہ سے بولان سنٹر بنایا ہواہے، جو کہ رات دن علاقائی نشریات دیتا ہے ۔کیا پی ٹی وی ملتان علاقائی نشریات نہیں دے سکتا ؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف میڈیا کے ذریعے بر سر اقتدار آئی لیکن اس دور میں سب سے زیادہ نقصان میڈیا کا ہوا ۔ پاکستان ٹیلیویژن کا آغاز 26 نومبر 1964 ء کو ہوا۔سالگرہ کے موقع پر پی ٹی وی کے تمام سنٹروں کو دولہن کی طرح سجایا گیا ۔ تمام سنٹروں پر کیک کاٹے گئے اور تمام سنٹروں سے پاکستان میں بولی جانیوالی زبانوں میں گیت اور نغمات نشر کئے گئے ۔ پی ٹی وی نے نیشنل ہوک اپ پر تمام پروگرام براہ راست دکھائے ۔ سپیشل ٹرانسمیشن میں پی ٹی وی ہوم کوئٹہ ، پشاور، اسلام آباد، لاہور ، مظفر آباد اور کراچی سنٹر سب موجود تھے ، اگر موجود نہیں تھا تو ملتان پی ٹی وی سنٹر۔ وسیب کے کروڑوں افراد خصوصاً وہ دیہات جہاں کیبل نہیں اور وہاں پی ٹی وی کے علاوہ کوئی دوسرا چینل نظر نہیں آتا، کے ذہن پر کیا گزری ، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ کیا حکمران اس پر سنجیدگی سے غور کر کے وسیب کے مسئلے حل کریں گے؟