سندھ ترقی پسند دانشوروں کی سرزمین ہے۔ یہاں ایسے بہت سے سیاسی کارکن اور رہنما پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی زندگی سندھ ‘ سندھی اقدار اور سندھ کی جمہوری آزادیوں کے لئے وقف کر دی۔ کچھ عرصہ قبل جناب رسول بخش پلیجو کا انتقال ہوا تو وہ ہزاروں غریب عورتیں ان کے جنازے کو کندھا دینے کے لئے آگئیں جنہیں پلیجو صاحب نے اپنے حقوق کے لئے کھڑا ہونا سکھایا تھا۔ تاریخ انسانوں کو اپنے معیاروں پر پرکھتی ہے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جو سندھ سے قومی سطح پر ابھرے اور لازوال کردار میں ڈھل گئے۔ بھٹو نے محروم طبقات کو طاقت کا احساس دیا۔ بھٹو کے نقش پاکستان کی تاریخ کے ہر صفحے پر ہیں۔ یہ بھٹو ہی تھے جن کے نام پر لوگوں نے خود سوزیاں کیں۔ بیگم نصرت بھٹو اور پھر بے نظیر بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کا پرتو ہی تھیں۔ ان کے دور میں یقینا بھٹو زندہ تھا۔ بے نظیر کا قتل حقیقت میں دوہرا قتل ہے۔27دسمبر 2007ء کو ذوالفقار علی بھٹو بھی لیاقت باغ میں مارا گیا۔ 2008ء کے انتخابات میں جو پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی اس کی وفاداریاں نئی قیادت کے ساتھ تھیں ایسے لوگ اہم عہدوں پر فائز ہوئے جنہوں نے پارٹی کمانڈ میں تبدیلی کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔ اقتدار ملتے ہی یہ طے کر لیا گیا کہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں پارٹی چاہے ہار جائے سندھ میں اس کے قدم مضبوط کئے جائیں۔ یعنی میثاق جمہوریت کی ایک ایسی تشریح بے نظیر بھٹو کے بعد کی گئی جس نے پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود کر دیا۔ امید تھی کہ سندھ ترقی کرے گا مگر سندھ پسماندہ ہوتا چلا گیا۔ کوئی غریب اپنی محرومیاں سناتا تو اسے جمہوریت زندہ باد کے نعرے تھما دیے جاتے۔ وسائل کی تقسیم اور سرکاری خزانے کے غیر شفاف استعمال پر سوال اٹھے مگر جو سوال اٹھاتا وہ گمراہ قرار پاتا۔ تھر میں بچے بھوک اور بیماریوں سے مرتے رہے۔ گوٹھوں اور دیہات میں لوگ جوہڑوں سے پانی پیتے رہے۔ وڈیروں کی جیلوں میں حریت پسند ملازمین قید ہوتے رہے۔ شہروں میں گندگی کے ڈھیر اور پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی پر توجہ نہ دی گئی۔ ہسپتال بند ہوتے یا پھر ڈاکٹروں اور ادویات سے محروم۔ نوکریاں بکتی رہیں‘ وزراء کے قبضے سے اربوں روپے نقد برآمد ہوتے رہے کوئی ٹارگٹ کلرز کو پکڑنے پر آمادہ تھا نہ رینجرز کو خوش دلی سے اختیارات دینے پر تیار۔ حالات نے ایک کروٹ لی ہے۔ جب حالات کروٹ لیتے ہیں تو اختیار کے مالک بدل دیئے جاتے ہیں۔خبر تھی کہ صنم بھٹو کو آصف علی زرداری کی حراست کی صورت میں پارٹی میں اہم ذمہ داری دی جا سکتی ہے۔ کچھ پکے ذرائع کا کہنا ہے کہ صنم بھٹو کبھی سیاست میں آنے پر تیار نہیں ہوں گی۔ وہ جانتی ہیں کہ جب کوئی بھٹو مارا جاتا ہے تو پارٹی کو اقتدار ملتا ہے۔ صنم بھٹو اپنی عزیز بہن کے بچوں کی سیاسی مدد کے لئے کچھ ملاقاتیں ضرور کر سکتی ہیں مگر وہ ہرگز سیاست میں سرگرم کردار قبول نہیں کریں گی۔ کیا اس بات کا امکان ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو سیاست میں آ جائیں؟ منی لانڈرنگ اور جعلی اکائونٹس والا معاملہ‘ ذرا مزید سنجیدہ ہو گیا تو شاید اس بات کا امکان بھی پیدا ہو جائے۔ جناب آصف زرداری دو ٹوک انداز میں مزاحمت کا اعلان کر چکے ہیں۔ مگر انہیں یاد رکھنا ہو گا کہ پارٹی کو متحد رکھنے والی بنیادی سوچ بھٹو خاندان رہا ہے۔ اب پارٹی بکھری تو بہت نقصان ہو گا۔ گوہر ہائوس میں سندھ اسمبلی کے اراکین کی ملاقاتیں اس نقصان کی تمہید سمجھ لیں۔ شائد کہیں طے کر لیا گیا ہے کہ کسی کو اب سندھ کارڈ کھیلنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ سیاسی تبدیلی کے آثار اب بہت واضح ہو رہے ہیں۔ پنجاب کے لوگ جمہوریت پسندی کی حقیقت جان چکے ہیں۔ اب سندھ کی باری ہے۔ زرداری مخالف قوتیں مضبوط ہو ئیں تو صوبے کا پورا سیاسی لینڈ سکیپ تبدیل ہو جائے گا۔ پاکستانی سماج اور ریاست میں جمہوری نظام کے حوالے سے اختلافی نکتہ نظر اسٹیبلشمنٹ نواز اور اسٹیبلشمنٹ مخالف صف بندی کا موجب رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی مسلسل بے عملی اور سیاسی قائدین کی عوام دشمن سرگرمیوں نے ریاست اور سماج کے اختلافی نکتہ نظر کی خلیج بتدریج کم کی ہے۔ شریف خاندان کے خلاف قانونی کارروائی پر عوام کا خاموش رہنا اور ن لیگ کو چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ بتاتا ہے کہ عوام کی برداشت جواب دے گئی ہے۔ یہ معاملہ ہمیشہ بحث طلب رہے گا کہ شریف خاندان کی فیکٹریوں کی اس وقت تعداد کیا تھی جب نواز شریف سیاست میں آئے۔ بات اس چیز پر بھی ہونی چاہیے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کو بار بار جو مینڈیٹ ملا اس میں پسے ہوئے طبقات‘ مڈل کلاس اور بے سہارا لوگوں کا حصہ کیا رہا اور ان کے لئے کیا کچھ کیا گیا۔ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نے گوٹ فٹ کر لی ہے۔ مجھے شیخ جی کی بات پر یقین ہے ورنہ ایک ایسا شخص جو نیب میں بطور ملزم زیر تفتیش ہو اسے یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ نیب کے اعلیٰ حکام کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بن کر طلب کرے اور کمیٹی میں بیٹھے اراکین نیب حکام کی بے عزتی کرنے کا منصوبہ بنا کر بیٹھے ہوں۔ سنا ہے کہ سلمان شہباز نے ترکی‘ سعودی عرب‘ کویت ‘ متحدہ عرب امارات اور قطر کے حکمرانوں سے رابطے کر کے اپنے خاندان کے خلاف قانونی عمل رکوانے کی اپیل کی ہے۔ ان ممالک نے صاف کہہ دیا ہے کہ اب ان سے کوئی توقع نہ رکھی جائے۔پھر سوچنے کی بات ہے کہ شہباز شریف نے کس کی ضمانت پر اسٹیبلشمنٹ سے اپنے معاملات ٹھیک کیے ہیں؟اور انہوں نے کیا ضمانت دی ہے۔