اپنی سوانح حیات میںبے نظیر بھٹو کہتی ہیں: سیاست کس قدر عجیب چیز ہے۔ 5فروری 1981ء کو پاکستان جمہوری پارٹی کے نصراللہ خان ترکی ٹوپی پہنے میری والدہ کے دائیں طرف بیٹھے‘ اصغر خان کی معتدل مزاج تحریک استقلال کے بھرے ہوئے چہرے والے خورشید قصوری ان کے نمائندے کے طور پر میرے بالمقابل براجمان تھے۔ جمعیت علمائے اسلام کے باریش رہنما کمرے میں ایک طرف تھے اور دوسری طرف بائیں بازو کی ایک چھوٹی سی جماعت کے رہنما فتح یاب علی خان۔ تقریباً 20کے قریب افراد تھے جن میں سے اکثر سابقہ پاکستان قومی اتحاد کے رہنما تھے۔ ایک مرحلے پر پی این اے کے سابق رہنما نے 1977ء کی متشدد تحریک میں اپنی پارٹی کے کردار پر تقریر شروع کر دی۔ میں اپنے ہی گھر میں پی پی پی پر بالواسطہ تنقید سن کر حیران رہ گئی۔ مجھے ان سیاستدانوں کو اس حالت میں دیکھنا عجیب لگا کہ میرے والد کے دشمن آج اسی پیالے میں کافی پی رہے تھے‘ اسی ٹیلی فون پر اپنے دوستوں کو ہیجان خیز پیغام دے رہے تھے کہ ’’ہاں ہاں میں 70کلفٹن میں بیٹھا ہوں‘‘۔ ’’میں نے اپنے اعتراضات کو پی لیا۔6فروری 1981ء کو تحریک بحالی جمہوریت(ایم آر ڈی) کی بنیاد رکھ دی گئی۔ اسی طرح دوسرے رہنمائوں نے بھی جنہوں نے آخر کار ایک ایک کر کے اتحاد کے منشور پر دستخط کئے۔ اس خبر نے لوگوں کو ایک نفسیاتی حوصلہ دیا۔ یہ مارشل لاء حکومت کی ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کی ابتدا تھی۔ صوبہ سرحد کے طلبا گلیوں میں آ گئے۔ بے چینی جلد ہی سندھ اور پنجاب میں پھیل گئی۔ جہاں یونیورسٹی پروفیسر ‘ وکلاء اور ڈاکٹر ابھرتی ہوئی احتجاجی تحریک میں شامل ہوتے گئے۔ ایم آر ڈی تحریک میں خدا کا شکر ہے ٹیکسی ڈرائیور‘ دکاندار اور چھوٹے تاجر شامل ہو گئے‘‘۔ 2006ء کا سال ہے مقام کراچی کا70کلفٹن نہیں لندن ہے۔ جہاں ایم آر ڈی کی روح رواں بے نظیر بھٹو ‘ ضیاء الحق کے وارث نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت کرتی ہیں۔ ضیاء الحق کی جگہ پرویز مشرف لے چکے۔دونوں عہد کرتے ہیں کہ جمہوری اقدار کو مضبوط بنائیں گے۔ غیر جمہوری قوتوں کی مدد لے کر جمہوری حکومت کو عدم استحکام کا شکار نہیں بنائیں گے۔ طے پایا کہ ایک دوسرے کے خلاف کرپشن کے نام پر سیاسی مقدمات نہیں بنائیں گے۔ عوام میں ایک بار پھر سنسنی دوڑ گئی۔ عالمی پریس نے خبر کو نمایاں جگہ دی۔پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہونے کی امید پیدا ہوئی‘ اس بات کا امکان دکھائی دیا کہ اب دو بڑے خاندان عام پڑھے لکھے کم آمدنی والے افراد کو بھی سیاست میں آ گے آنے کا موقع دیں گے۔ یہ سب خواب ثابت ہوا۔جو سنا افسانہ تھا اور جو دیکھا وہ وعدہ شکنی۔ یہ ستمبر 2020ء ہے۔ اسلام آباد میں حکومت مخالف جماعتوں کے رہنما جمع ہوئے۔ ایم آر ڈی بنتے وقت جو باریش اس قابل نہ تھے کہ ان کا نام بھی بے نظیر بھٹو اپنی یادداشتوں میں درج کرتیں اس بار وہ سب سے زیادہ اصول پسندی کی بات کر رہے تھے۔ باقی لوگ تو سیاسی طور پر 1981میں پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔ پھر ایک نئی چیز یہ کہ اس بار جمہوریت دوست ایک آمر کے خلاف جدوجہد پر جمع نہیں ہوئے بلکہ ان کا مقصد اس حکومت کو ہٹانا ہے‘عوام نے جسے ان تمام کو مسترد کر کے مینڈیٹ دیا۔اس بار آمریت و جمہوریت کی جنگ ہے ہی نہیں۔ تو پھر یہ کیسا اتحاد ہے‘ کیا ایسے اتحاد کو 2006ء کے میثاق جمہووریت کے اصولوں پر پرکھنے میں کوئی عار ہے۔ پہلے آمر حکومتوں کے خلاف سیاسی اتحاد بنتے تھے تو عام آدمی متحرک ہو جاتا تھا۔ اس بار 20‘25دولت مند سیاستدان ہیں‘ جو کبھی فوجی قیادت کی منتیں کرتے ہیں‘ کبھی دھمکیاں دیتے ہیں۔ سیاست نئی حقیقتوں کو تسلیم کرنے کا نام ہے‘ مخالفت میں اندھا ہو جائیں تو پھر کھائی میں گرنے کا ڈر ہوتا ہے۔سیاست میں امکانات کا تعاقب ضرور کیا جاتا ہے جیسے ن لیگ کے نصف درجن رہنما فوجی دفاتر کے مسلسل چکر لگا کر ایک امکان پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں ، لیکن کوئی سیاسی نظریہ اور جمہوری موقف ضرور ایسا ہوتا ہے جو سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کہلاتا ہے۔ایم آر ڈی کی تشکیل کے وقت سیاسی مخالفین اس وجہ سے ایک کمرے میں جمع ہو گئے کہ سب جمہوریت کی بحالی چاہتے تھے،اب اتحاد اس وجہ سے بنائے جاتے ہیں کہ ملک ، اداروں اور عوام کے خلاف سرگرمیوں کی چھوٹ ملے۔یہ کیسے سیاستدان ہیں جو حکومت سے مکالمہ کا دروازہ نہ کھول سکے ۔کیا ان کے لئے حکومت سے بات کرنا دھرنے کے بعد پی ٹی آئی کی اسمبلی میں واپسی سے بھی مشکل صورتحال ہے ،کیا دونوں بڑی جماعتیں مولانا کی آتش انتقام بھجانے کے لئے جمہوریت کو ذبح کر سکتی ہیں؟ مجھے شک نہیں یقین ہے کہ اے پی سی والی اپوزیشن حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ پائے گی۔ ہر یقین کی تعمیر دلیل سے ہوتی ہے۔ پہلی بات یہ کہ پیپلز پارٹی‘ ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام نئی سیاسی حقیقتوں کو اب تک نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔ ان تینوں کا خیال ہے کہ وہ اب تک جمہوری افادیت رکھتی ہیں۔ ان جماعتوں کو گمان ہے کہ وہ متحد ہو جائیں تو ایم آر ڈی جیسی جمہوری طاقت میں ڈھل سکتی ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ نوابزادہ نصراللہ اور بیگم نصرت بھٹو جیسا بالغ نظر کوئی رہنماموجودہ اپوزیشن اتحاد میں ہے۔جمہوری معاشروں نے ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد بھی پی ڈی ایم کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ اتحاد کی سربراہی پر مولانا قبضہ کرنا چاہتے ہیں‘ بلاول محتاط ہیں کہ کہیں ان کی سیکولر شناخت جے یو آئی سے مغلوب نہ ہو جائے اور ن لیگ اس فکر میں کہ کہیں اس کے خفیہ کھاتے سرکار ضبط نہ کر لے۔