استاد نے برسوں پہلے کہا تھا کوئی ایشو اگر سمجھ نہ آئے تو اس کے سلائس بنا کر دیکھو۔ مختلف ٹکڑوں میں بٹ جانے سے اس کی گمبھیرتا اور پیچیدگی کو بسا اوقات سمجھنا آسان ہو جاتاہے۔لکھنے کے اس سفر میں بارہا اس تکنیک کو آزمایا، ہر بار مفید ثابت ہوئی۔ اس سے بہت پہلے ،برسوں بلکہ عشروں پہلے جب کالج، یونیورسٹی کے زمانے میں ہم گھنٹوں بحث مباحثے کیا کرتے۔کبھی فرقہ ورانہ بحثیں،طبقاتی کشمکش کی تھیوریز ، قوم پرست تحریکیںاور رائٹ ونگ کے نظریاتی مجادلے تو خیر شروع ہی سے ساتھ تھے۔ انہی دنوں ایک دانا نے مشورہ دیا کہ جس کی مخالفت کرنی ہے، پہلے اسکا موقف سن، پڑھ، سمجھ لو اور یاد رکھنا کہ پچاس فیصد سے زیادہ تعصبات اس وقت ختم ہوجاتے ہیں جب آپ کسی کا نقطہ نظر خود اسکی زبانی سن لیں۔ نوجوان کا جوش اپنی جگہ، مگر یہ بات دل کو لگ گئی، گرہ باندھ لی، زندگی میں بہت جگہ پر کام آئی۔ پی ٹی ایم (پختون تحفظ موومنٹ )کے حامیوں کو یہ شکوہ ہے کہ ان پر بلاجواز تنقید کی جا رہی ہے اور اہل پنجاب خاص طور سے ان کے موقف کو سمجھ نہیں رہے۔ سوشل میڈیا پر ایک اچھا خاصا حلقہ ہے جو اس حوالے سے خودترسی کے شیرے میںلت پت غمزدہ گیت گاتا نظر آتا ہے۔ ہر تنقیدکا کچھ پس منظر ہوتا ہے، اسے جان لیا جائے تو بیشتر شکوے اور تلخیاں ازخود دم توڑ جاتی ہیں۔ پی ٹی ایم کی بنیاد ہی غلط اور دانستہ طور پرسوچی سمجھی قوم پرستی کی اینٹ پر رکھی گئی ہے۔ بنیادی طور پر یہ لوگ آپریشن متا ثرین کے مسائل لے کر کھڑے ہوئے۔زیادہ مسائل شمالی وزیرستان سے متعلق تھے۔ شمالی وزیرستان کا آپریشن خاص طور سے طول کھنچ گیا اوروہاں مزاحمت زیادہ ہونے کی وجہ سے لڑائی دیہات، گلی محلوں تک چلی گئی ،فطری طور پر گولہ باری، فائرنگ وغیرہ سے املاک زیادہ متاثر ہوئیں۔شمالی وزیرستان ٹی ٹی پی یعنی تحریک طالبان پاکستان کا آخری مورچہ تھا، اس کے بعد انہیں افغانستان پسپا ہو کر کنڑ، نورستان جیسے صوبوں میں پناہ لینی پڑی ۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے شکست کھاکر پسپاہونے کے بعد بھی وقتا فوقتا سرحد عبور کر کے حملوں اور مختلف طریقوں سے شمالی وزیرستان میں سرائیت کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ اسی وجہ سے دیگر ایجنسیوں میں آپریشن کی نسبت یہاں پر زیادہ تعداد میں چیک پوسٹیں قائم ہوئیں،سکریننگ کا عمل بھی زیادہ سخت اور شائد کسی حد تک تکلیف دہ رہا ہوگا۔غلطی یہ ہوئی کہ فورسز کے آپریشن کے بعد سول انتظامیہ ان کی جگہ معاملات سنبھال نہ سکی۔سول ادارے اپنی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود پبلک ڈیلنگ کا زیادہ بہتر تجربہ رکھتے ہیں۔ان میں بیشترمقامی زبان بولنے والے ،انہی علاقوں کے لوگ ہوتے ہیں، مقامی رسم ورواج، کلچر اور مسائل سے زیادہ واقف ۔ ایسا نہ ہونے سے گوناگوں مسائل پیدا ہوئے۔ پی ٹی ایم نے اپنے قیام کے بعد تین چار بنیادی مطالبات سامنے رکھے۔ شمالی وزیرستان آپریشن کے دوران تباہ ہونے والی املاک ، کی تلافی، خاص کر دکانداروں کو ان کی دکانیں تعمیر کرنے کے لئے سرمایہ کی فراہمی، دوسرا اہم مطالبہ چیک پوسٹوں کا خاتمہ یا تعداد میں کمی تاکہ آنے جانے والوںکی پریشانی میں کمی لائی جائے تیسرا مطالبہ علاقہ میں دفن بارودی سرنگوں کا خاتمہ تھا۔ یاد رہے کہ ٹی ٹی پی نے مزاحمت کے دوران بے شمار جگہوں پر مائنز دفن کر دیںتاکہ فورسز کے جوانوں کی پیش قدمی روکی جا سکے۔ ان بارودی سرنگوں کا نشانہ آئے روز مقامی لوگ خاص کر بچے بن رہے تھے۔ آخری اور اہم مطالبہ مسنگ پرسنز کی بازیابی تھا۔ یہ سب جینوئن مطالبات تھے، ہر ایک نے ان کی حمایت کی۔ مسئلہ تب بنا جب اسے بلاجواز طور پر پختون تحریک کی شکل دی گئی۔ یہ پختونوں کا ایشو نہیں تھا۔ وزیرستان ایجنسی میں آپریشن اس لئے نہیں ہوا کہ وہاں پختون رہتے ہیں یا اس سے چند سال پہلے سوات آپریشن اس بنیاد پر نہیں ہوا تھا۔ یہ اتفاق ہے کہ دونوں آپریشن پشتون بولنے والے علاقوں میں ہوئے، مگر ان کی بنیاد دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑنا تھا۔ زبان یا قومیت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر بلوچستان کے بلوچ علاقوں میں آپریشن یا محدودکارروائیاں ہوئیں؟اگر پشتون ٹارگٹ تھے تو پھر پچھلے پانچ برسوں کے دوران پشین، ژوب وغیرہ میں آپریشن کیوں نہیں ہوا؟ اسی طرح اگر فورسز پشتون آبادی کے خلاف آپریشن کر رہی تھی تب پشاور کے علاوہ نوشہرہ، مردان ، صوابی، چارسدہ میں آپریشن کیوں نہیں کیا گیا؟ اس بار شمالی وزیرستان کے ساتھ مالاکنڈ ڈویژن میں آپریشن کیوں نہیں کیا گیا، وہاں تو پشتون بولنے والی آبادی ہے اور ماضی میں سوات آپریشن ہو بھی چکا؟ وجہ یہی کہ آپریشن کا نشانہ پشتون نہیں بلکہ دہشت گرد تھے،۔جہاں پشتون سپیکنگ دہشت گرد گروہ تھے، وہاں وہ نشانہ بنے اور جہاں سرائیکی یا پنجابی بولنے والے دہشت گردگروہ تھے، جیسے ڈی جی خان کے علاقوں شادن لنڈ وغیرہ، فیصل آباد، خانیوال وغیرہ ، وہاں آپریشن سرائیکی، پنجابی بولنے والے جنگجوئوں کے خلاف ہوا۔ملک اسحاق پشتو تو نہیں بولتا تھا؟اسی طرح کراچی میں ٹارگٹ کلر گروپ نشانہ بنے، ان کا تعلق پشتون نہیں بلکہ اردو سپیکنگ جماعت سے تھا۔ یہ اردو سپیکنگ علاقے اندرون سندھ میں ہیں،حیدرآباد، میرپورخاص، سکھر، لاڑکانہ شہر وغیرہ، وہاں ایسا کوئی آپریشن نہیں ہواکیونکہ مقصد اردو سپیکنگ آبادی کو نشانہ بنانا نہیں تھا۔ پی ٹی ایم بنیادی طور پر آپریشن متاثرین آبادی کے مسائل لے کر کھڑی ہوئی۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ لوگوں کو جب شکایات ہوں تو وہ ظاہر ہے احتجاج کریں گے، یہ ان کا جمہوری حق ہے۔ پی ٹی ایم نے مگر اسے پختون تحفظ موومنٹ بنا کر ایک خاص منفی رنگ دیا۔ منظور محسود نامی نوجوان ایکٹوسٹ نے اپنا نام منظور پشتین رکھ کرتحریک کو پرجوش انداز میں اٹھایا۔دانستہ طور پر اس پلیٹ فارم میں فوج مخالف عناصر کو نمایاں جگہ دی گئی۔ستم ظریفی یہ ہے کہ یہاںپروطالبان اور طالبان مخالف دونوں اکٹھے موجود ہیں۔ یہ تضاد کیسے ممکن ہے؟ اس تحریک کے ایک شعلہ بیان لیڈر علی وزیر جو اب ایم این اے بھی ہیں، ان کے خاندان کے کئی لوگوں کو طالبان نے قتل کیا۔ بڑا ظلم ہوا۔ انہیں غصہ ہے کہ فورسز نے طالبان کا صفایا نہیںکیا اور کچھ لوگوں کو چھوڑ دیا۔ یہ مگر سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ پی ٹی ایم کے پلیٹ فارم پر انہی طالبان کے ساتھ کیسے کھڑے ہیں؟مسنگ پرسنز کی جہاں تک بات ہے، ظاہر ہے ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہوں گے جن پر ٹی ٹی پی کا ساتھ دینے کا شبہ ہوگا۔ ان مسنگ پرسنز کی بازیابی کے لئے زیادہ زورشور سے آواز وہ پی ٹی ایم رہنما اٹھا رہے ہیں جوطالبان کا مکمل صفایا چاہتے تھے اور جنہیں یہ شکوہ ہے کہ فورسز نے نرمی برتی۔ یہ عجیب وغریب تضادات ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ اسی طرح سمجھ سے بالاتر ہے کہ پی ٹی ایم کی اس تحریک میں بلوچستا ن کی پشتون بیلٹ کے لوگ کس طرح شامل ہوئے ؟شمالی وزیرستان میں چیک پوسٹیں ختم کرنا، وہاں بارودی سرنگوں کی صفائی ، دکانداروں کو ادائیگی کرنا ہے، مگر اس کے لئے تحریک پشین، ژوب، لورالائی میں چلائی جا رہی ہے؟پچھلے ستر برسوں میں تو کبھی بلوچستان کی پشتون بیلٹ کے یہ سیاسی عناصرشمالی وزیرستان یا فاٹا والوں کے لئے نہیں اٹھے۔ اب اچانک کیا انقلاب آگیا؟بھائی سیدھی بات ہے کہ پشتو محاورے کے مطابق محمود خان اچکزئی شمالی وزیرستان کے تنور میں اپنی روٹی پکانا چاہتے ہیں۔پنجابی سلینگ کے مطابق اپنا لچ تلنا۔ آپریشن سے پہلے اور بعد میں کبھی اچکزئی صاحب نے فاٹا جانے کی زحمت نہیں فرمائی۔ وہ کبھی ایک فیصد کے بھی سٹیک ہولڈر نہیں رہے۔ پچھلے انتخابات میں انہیں فاٹا سے مبلغ ڈیڈھ سو ووٹ ملے، نصف جس کے پچھتر بنتے ہیں۔ پی ٹی ایم کا سب سے متنازع اور خطرناک نعرہ’’لر وبر افغان‘‘ یعنی دونوں طرف افغان ہے۔ یہ محمود اچکزئی صاحب اور ان کی پارٹی کا مخصوص نعرہ ہے۔ اس کے ڈانڈے وہی پرانے گریٹر پختونستان والے ایجنڈے سے ملتے ہیں۔فیس بک پر آپ کو پی ٹی ایم کا کیس لڑنے والے کئی ایسے نام نہاد لسانی ماہرین مل جائیں گے جو مختلف دلائل سے ثابت کریں گے کہ افغان سے مراد پشتون ہے اورلروبر افغان یعنی پشتون یہاں بھی ہیں اور افغانستان میں بھی۔ یہ جھوٹ اور دھوکادینے کے سوا کچھ نہیں۔ افغانستان میں صرف پشتون نہیں رہتے، وہ تو مشکل سے چالیس فیصد ہیں، تاجک، ازبک ، ہزارہ، ترکمان آبادیاں افغانستان کا پچاس فیصد سے زیادہ حصہ ہے، وہ افغان ہیں، مگر پشتون نہیں۔’’لروبر افغان ‘‘کے لفظی یا لغوی معنی سے قطع نظر یہ بات کہنے والے وہی لوگ ہیں جو پاکستان کے خلاف نظمیں لکھتے، قائداعظم کی توہین کرنے، پاکستان کے خلاف نعرے لگانے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں جانے دیتے۔ پی ٹی ایم کا بنیادی ایجنڈا درست تھا۔مگر یہ تحریک بدقسمتی سے ہائی جیک ہوگئی۔ اس کا پلیٹ فارم ایک خاص ایجنڈے کے لئے استعمال ہورہاہے۔ علی وزیر کی فوج مخالف تقریروں کو نظرانداز کر دیں، منظور پشتین کے حالیہ اعلان جنگ ٹائپ وڈیو کو چھوڑ دیں، ارمان لونی کی ہمشیرہ کی ملک دشمن تقریر سے صرف نظر کر دیں تب بھی ان کا اصل ایجنڈہ وہی ہے، گھوم پھر کر وہی ملک دشمن بیانیہ ہی سامنے آتا ہے۔ اسی وجہ سے پی ٹی ایم متنازع بن چکی، اس کی لیڈر شپ، ایجنڈے کے بارے میں شدید شکوک پیدا ہوئے ۔ اسی وجہ سے ہم ان کے جینوئن مطالبات کی حمایت کھل کر نہیں کر پا رہے ۔ اسے المیہ کہیں یا بدقسمت حقیقت ، آنکھیں مگر نہیں چرا سکتے۔