گزشتہ روز وکلاء کی بڑی تعداد نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر دھاوا بول دیا اور ایمرجنسی ، آئی سی یو، آپریشن تھیٹر اور وارڈز میں گھس کر توڑ پھوڑ کی جسکے باعث طبی امداد نہ ملنے پر 3 مریض جاں بحق ہو گئے، ڈاکٹر اور طبی عملہ نے بھاگ کر جانیں بچائیں ۔ پولیس نے بتایا ہے کہ ڈھائی سو وکلاء کے خلاف مقدمات درج کر لئے گئے ہیں ۔ اور بہت سے وکلاء کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے ۔ درج کئے گئے مقدمات میں ڈکیتی اور دہشت گردی کی دفعات بھی شامل ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اس واقعے میں تین مریض جاں بحق ہو گئے ، ان کے قتل کا ذمہ دار کون ہے ؟ یہ تعین کس کی ذمہ داری ہے ؟ آیا یہ کام پولیس کرے گی یا عدلیہ اس کا از خود نوٹس لے گی؟ ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا پولیس اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرے گی کہ وکلاء کچہری سے چلتے ہیں ، پولیس بھی ان کے ساتھ ساتھ ہے ، وکلاء کہہ رہے ہیں کہ ’’ آج بائی پاس ہوگا ، آج سٹنٹ ڈلیں گے ، آج گھس کر ماریں گے ‘‘ تو سوال یہ ہے کہ غنڈہ گردی کے اس اعلان کا پولیس نے پیشگی تدارک کیوں نہ کیا ؟ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جوں ہی وکلاء پی آئی سی کی طرف بڑھ رہے تھے ، ہم لمحہ بہ لمحہ حکومت کو اس بارے آگاہ کر رہے تھے ۔ پولیس حکام ، ڈسٹرکٹ انتظامیہ ، صوبائی وزیر صحت اور وزیراعلیٰ ہاؤس کو بھی جب آگاہ کیا جا رہا تھا تو حفاظتی انتظامات کیوں نہ ہوئے ؟ ان سب سوالات کا جواب متعلقہ اداروں کے ذمے قرض ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے پنجاب کے چیف سیکرٹری اور آئی جی سے رپورٹ طلب کر لی۔ واقعے کا نوٹس لینا کوئی نئی بات نہیں ۔ لیکن ہر مرتبہ یہی کچھ ہوتا ہے کہ واقعہ کا نوٹس لیا جاتا ہے ، انکوائری کمیٹی بنا دی جاتی ہے اور پھر سب کچھ ’’ کمیٹی ‘‘ کے اندر بند ہو کر رہ جاتا ہے۔ اتنا بڑا واقعہ ہوا ہے ‘ ابھی تک کسی ایک بھی ذمہ دار کو اس کے منصب سے نہیں ہٹایا گیا ۔ جس سے نہ صرف یہ کہ گڈ گورننس پر سوال پیدا ہوئے ہیں بلکہ عام آدمی اس حد تک مایوس ہو چکا ہے کہ جس سے بھی پوچھیں وہ کہتا ہے کہ کچھ نہیں ہوگا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پی آئی سی میں 23 نومبر کو ڈاکٹروں اور وکلاء میں جھگڑا ہوا تھا۔ گزشتہ روز ڈاکٹرز کی طرف سے تضحیک آمیز گفتگو کی ویڈیو کے وائرل ہونے پر وکلاء مشتعل ہو گئے۔وکلاء نے جس لاقانونیت اور غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا ہے ، اس پر قطعی طور پر دو رائے نہیں ہو سکتی ۔ مگر اس بات کی بھی تحقیق ہونی چاہئے کہ جھگڑا ہوا ، صلح بھی ہوئی اور بعد میں وہ کون سے شرپسند تھے جنہوں نے ایک ڈاکٹر کی پہلے والی ویڈیو دوبارہ وائرل کروائی، جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ اگر 99 فیصد قصور وکلاء کا ہے تو ان کو اتنی سزا ملنی چاہئے اور ایک فیصد قصور ڈاکٹروں کا ہے تو ان کو بھی اپنے کئے کی سزا ضرور ملنی چاہئے ۔ دوسری جانب واقعہ کے بعد وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی صدارت میں کابینہ کمیٹی برائے امن کا اجلاس ہوا جس میں وکلاء کی ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے واقعہ کی ابتدائی رپورٹ پیش کی گئی ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت کی رٹ کو ہر صورت بحال رکھا جائیگا ، جن وکلاء نے بھی قانون ہاتھ میں لیا ان کے خلاف سخت کاروائی ہو گی ۔ ساہیوال اور دوسرے واقعات پر بھی وزیراعلیٰ کے بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں ۔ مگر ساہیوال واقعے کے زخم ابھی تازہ ہیں ۔ ایک جو سب سے اہم بات ہے وہ صوبے کا حجم ہے ۔ ایک آئی جی کے بس کی بات نہیں کہ وہ 12 کروڑ آبادی کا صوبہ سنبھال سکے ۔ اس مقصد کیلئے دیگر جماعتوں کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف نے بھی صوبہ بنانے کا وعدہ کر رکھا ہے اور وزیراعلیٰ بھی اسی صوبہ محاذ کے رکن تھے اور ان کے پاس بھی مینڈیٹ صوبے کا ہے ۔ 100 دن کا وعدہ ہوا مگر سوال یہ ہے کہ 500 دنوں میں نہ صرف یہ کہ صوبہ نہیں بن سکا بلکہ صوبہ کمیشن تک نہیں بنایا جا سکا ۔ صوبے کی بجائے ملتان سب سول سیکرٹریٹ کا لولی پاپ دیا گیا ، تین ارب روپے اس مقصد کیلئے بجٹ میں بھی مختص کئے گئے ، مگر سب سول سیکرٹریٹ پر بھی ظلم یہ ہوا کہ حکومتی سطح پر وسیب کے لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوشش ہوئی ، وسیب میں تفریق پیدا کرائی گئی ۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو نہ صرف صوبہ پنجاب بلکہ پورے ملک کے لئے عذاب کا باعث ہیں ۔ کیا عمران خان ،عثمان بزدار یا مقتدر قوتیں اس اہم مسئلے کی طرف کبھی غور کریں گی ؟ جب چینل پر واقعے کی فوٹیج دیکھتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے ، کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ مریضوں اور ان کے لواحقین کو شدید مشکلات کا سامنا رہا ۔ کئی مریضوں کو وہیل چیئر پر وارڈ سے نکال کر گراؤنڈ پر منتقل کیا گیا۔ ایک مریض نے بتایا کہ بڑی مشکل سے اپنی جان بچائی ، وکیل آکسیجن سلنڈر اٹھا اٹھا کر مار رہے تھے ،ایک اور مریض نے کہا کہ اس کا بائی پاس ہوا، آج اس کا برا حال ہوا ہے، وہ کیا کرے۔ ہسپتال میں زیر علاج ایک مریضہ کے بھائی نے الزام لگایا کہ وکلاء نے اس کی بہن کا آکسیجن ماسک اتار دیا تھا ، وکلاء نے مریضوں کے لواحقین کو بھی نہ بخشا ، ڈنڈے مار کر ان کے سر پھاڑ دیئے۔ لاہور میں قانون دانوں کی طرف سے ہونے والا واقعہ شاید پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا بد ترین واقعہ ہو کہ حالت جنگ میں دشمن ملک کی افواج ہر جگہ گولہ باری کرتی ہے مگر ہسپتالوں پر دشمن بھی حملہ نہیں کرتے۔ ہسپتال کا اتنا احترام ہے کہ ہر جگہ لکھا ہوتا ہے ہارن بجانا منع ہے ‘ لاہور کا واقعہ ہماری آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے کہ یہ وکلاء گردی افتخار چوہدری کے دور کا تسلسل ہے ‘ وکیل کا تعلق بار سے اور بار کا بینچ سے ہوتا ہے ۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض حالات میں وکلاء نے بینچ کو بھی نہیں بخشا مگر کیونکہ پیٹی بھائی والا معاملہ ہوتا ہے ، اس لئے سب ایک دوسرے کے ساتھ ’’ رَلے ‘‘ہوئے ہوتے ہیں ۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جس پر توجہ کی ضرورت ہے کہ ڈاکٹر کی تعلیم انتہائی مشکل ہے ‘ لیکن ڈاکٹر کی تنخواہ اور اختیار ایک سول جج کے مقابلے میں نہایت کم ہونا ایک سوال ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ میاں نواز شریف ‘ میاں شہباز شریف نے اپنی ذاتی اغراض کے تحت جج صاحبان کی دو سو فیصد تک تنخواہیں بڑھائیں تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جج صاحبان کو از خود نوٹس لیکر تنخواہوں کے سکیل اور مراعات دوسرے اداروں کے برابر کرنے چاہیں کہ عدلیہ کی آزادی کامقصد برابری ، مساوات اور انصاف ہونا چاہئے۔