سابق وزیراعظم یو سف رضا گیلانی جنہوں نے اسلام آباد کی جنرل نشست پر قومی اسمبلی کے ارکان کے ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہوکربڑا معرکہ مارا تھا، نے بڑے طمطراق سے چیئر مین سینیٹ کا انتخاب لڑا لیکن اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے سات ارکان انہیں دغا دے گئے۔ کہتے ہیں کہ اس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کلیدی کردارادا کیا۔ ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے لئے گیلانی کا چیئرمین بننا اس کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہوتا۔ ویسے بھی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے چیئرمین سینیٹ کے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی اور اس کے حواری من مانی قانون سازی نہ کر پاتے۔ اس لحاظ سے سنجرانی جیسی قابل اعتماد شخصیت کی اس منصب پر موجودگی بظاہر پی ٹی آئی کیلیے اطمینا ن کا باعث ہوگی، لیکن گیلانی صاحب کہاں نچلے بیٹھنے والے تھے، انہوں نے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کو کالعدم قرار دینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی جسے عدالت نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ وہ آئینی طورپر پارلیمنٹ کے امور میں دخل نہیں دے سکتی اور مشورہ دیا کہ اگر انہیں اپنی مقبولیت پر اتنا یقین ہے تو وہ عدم اعتماد کر کے دوبارہ الیکشن لڑ لیں۔ روٹی تو کسی طور کما کھا ئے مچھندر، گیلانی صاحب نے اس مشورے پر صاد کیا لیکن اسٹیبلشمنٹ کے تیور دیکھتے ہوئے ایک زیرک سیاستدان کے طور پر انہوں نے سینیٹ میں لیڈر آف اپوزیشن کا اعزاز حاصل کر لیا۔ مسلم لیگ )ن( کا دعویٰ ہے کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر پیپلز پارٹی سے جوانڈرسٹینڈنگ ہوئی تھی اس کے مطابق چیئرمین سینیٹ کا عہدہ پیپلزپارٹی کے پاس جبکہ اپوزیشن لیڈر مسلم لیگ (ن )کا ہوگا۔ تاہم گیلانی صاحب کی شکست کے بعد سیاسی منظر نامہ ہی بدل گیا اور دونوں جماعتیں کھل کر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کی مداخلت کے بعد کسی حد تک سیز فائر ہوا لیکن وہ بھی عارضی ثابت ہوا۔ اب اگر کوئی معجزہ ہو جائے تو الگ بات ہے بصورت دیگر دما دم مست قلندر ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جس میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی حکومت کے بجائے اب ایک دوسرے سے دست وگریبان ہونگی۔ حکومت فطری طور پر اس پیش رفت پر بہت خوش ہے اور اس کے وزرا اپوزیشن کو طعنے دیتے نہیں تھکتے کہ ہم نہ کہتے تھے پی ڈی ایم لانگ مارچ اور استعفوں تک پہنچنے سے پہلے ہی ٹھس ہو جائے گی۔ حکومتی سطح پر مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کا خوب مذاق اڑایا جا رہا ہے کہ جوشیلی سیاست کرتے ہوئے ان کے پائوں زمین پر نہیں رہے ،دوسری طرف زرداری اینڈ کو اپنی سیاست میں مست ہیں، انہوں نے دانستہ طور پر ایک حدسے زیادہ فوجی قیادت کو للکارنے اور ذاتی حملے کرنے سے گریز کیا۔ یہ وہی سیاست ہے جو پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اپنے خلاف قومی اتحاد کی تحریک کے دوران بھی ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بہت بڑی شخصیت مولانا ظفر احمدانصاری کے ذریعے بیک ڈور چینل کھلا رکھا ا ور بھٹو صاحب جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی سے ملنے اچھرہ لاہور میں ان کی اقامت گاہ پہنچ گئے تھے۔ بلاول بھٹو بھی حال ہی میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے ملاقات کے لیے منصورہ پہنچ گئے اور نتیجتاً جماعت اسلامی نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لیے اپنا واحد ووٹ یوسف رضا گیلانی کو دے دیا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن "زیر وسم" اپروچ سے میاں صاحب اور اب ان کی صاحبزادی سیاست کو سیاہ اور سفید میں دیکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جوڑ توڑ صرف انہی کی شرائط پر ہو سکتا ہے۔ اسی بنا پر وہ فوجی قیادت سے مات کھا گئے اور انہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ حال ہی میں سینیٹ کی معرکہ آرائی جس میں وہ جیتی ہوئی بازی بھی ہار گئے ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری جو بڑے شاطرانہ انداز سے مہرے کھیلتے ہیں، اپنی کمزوریوں کو اپنے مضبوط پوائنٹس بنا کر سیاست میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے برعکس میاں نواز شریف کا حال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے برادر خورد میاں شہباز شریف کو جو کوٹ لکھپت جیل میں پابند سلاسل ہیں، کھڈے لائن لگا رکھا ہے۔ حمزہ شہباز جو پنجاب میں مریم نواز سے زیادہ موثررابطے رکھتے ہیں ،کو بھی ہنوزسائیڈ لائن کر رکھا ہے۔ مریم نواز شریف نے انگور کھٹے ہیں کہ مصداق موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ صف بندی ہوچکی ہے اور واضح لکیر کھنچ گئی ہے، ایک طرف وہ لوگ کھڑ ے ہیں جو قربانیاں دے کر عوام اور آئین کی خاطر جدوجہد کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے چھوٹے سے فائدے کے لئے جمہوری روایات کو روند ڈالا، عوام پہچا ن گئے ہیں کہ کس کا کیابیانیہ ہے۔مریم نواز کا کہنا تھا کہ چھوٹے سے عہدے کے لئے آپ نے باپ سے ووٹ لے لئے، اگر یہ عہدہ چاہئے تھا تو آپ نواز شریف سے بات کر لیتے ، وہ آپ کو ووٹ دے دیتے ، آپ نے اس باپ سے ووٹ لئے جو اپنے باپ کی اجازت کے بغیر کسی کو ووٹ نہیں دیتا۔ شاید یہ پہلی مثال ہے کہ لیڈر آف دی اپوزیشن حکو مت سلیکٹ کر رہی ہے، ان کا کہنا تھا جب آپ سمجھتے ہیں کہ سوائے سلیکٹ ہونے کے آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں تو آپ تا بعداری کرتے ہیں، آپ چاہے خود کو جتنی بھی تسلیاں دے لیں لیکن آپ کو یہ ماننا پڑے گا کہ آپ کو باپ نے ووٹ دئیے ہیں۔ مریم نواز کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ بیمار ہوگئی ہیں،اللہ انہیں شفا دے، ان دنوں انہیں اپنی سیاسی حکمت عملی پر بھی ٹھنڈے دل سے غور کر نا چاہیے۔