28 جنوری 2020ء روزنامہ 92 نیوز میں ’’ پی ٹی وی فیس میں اضافہ ‘‘ کے عنوان سے میرا کالم شائع ہوا۔ جس پر مختلف مکتبہ فکر کے دوستوں نے رد عمل کا اظہار کیا ۔ خصوصاً پی ٹی وی ذرائع سے جو معلومات حاصل ہوئیں ، وہ ہوشربا ہیں ۔ سب کا کہنا یہ تھا کہ پی ٹی وی فیس میں ناروا اضافے کی تجویز نہ صرف یہ کہ غریب طبقے کو پریشان کرنے کے مترادف ہے بلکہ یہ موجودہ حکومت کے خلاف ایک سوچی سمجھی سکیم بھی ہے ۔ رائے عامہ کے مطابق حکومت کو فیس میں اضافے کی بجائے پی ٹی وی کے اخراجات میں کمی کرنی چاہئے اور کرپشن پر قابو پانا چاہئے کہ ایک طرف 200 ارب کے نقصان کی باتیں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف آج بھی بھاری معاوضوں کے ذریعے مراعات یافتہ لوگوں کو نوازا جا رہا ہے۔ میرے کالم پر رد عمل دینے والوں نے کہا ہے کہ آپ نے بجا طور پر لکھا کہ بجلی بلوں کے ساتھ پی ٹی وی لائسنس فیس غیر اصولی ہے اور فیس ان لوگوں سے بھی وصول کی جا رہی ہے جن کے گھروں میں ٹی وی سیٹ نہیں ۔ ملتان کے صحافی شیخ ممتاز الرحمن نے کہا کہ میں آپ کی بات کو آگے بڑھاؤں گا کہ ان گھروں کے ساتھ کہ جہاں ٹی وی سیٹ نہیں پھر بھی فیس وصول کی جاتی ہے ، یہاں تو یہ بھی ہوا ہے کہ مساجد کے بجلی بلوں کے ساتھ پی ٹی وی فیس لگ کر آئی ۔ ان کا کہنا ہے کہ کبوتر منڈی ملتان میں پچھلے دنوں بزرگ حجام خلیفہ محمد حسین بھٹہ کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوا ، وہ ہمارا ہمسایہ تھا ، ہر وقت غربت کی وجہ سے پریشان رہتا اور اس کی دوکان کے بل کے ساتھ انکم ٹیکس لگ کر آتا تو وہ کہتا کہ میں تو دکان کا کرایہ بھی نہیں دے سکتا تو میں نے کہاں سے انکم حاصل کر لی کہ ٹیکس دوں ؟ اور وہ اپنے گھر کے بجلی بل کی بات کرتا کہ ہمارے پاس تو ٹی وی نہیں لیکن ہر وقت فیس لی جا رہی ہے ۔ شیخ ممتاز الرحمن کا کہنا ہے کہ یہ بہت بڑی نا انصافی ہے جس پر تحریک انصاف کی حکومت کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پی ٹی وی ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ پی ٹی وی بورڈ آف ڈائریکٹر کی گزشتہ میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ ٹی وی فیس کی مد میں 35 روپے کی بجائے 100 روپے فی کس وصول کئے جائیں گے تاکہ 200 ارب روپے کا ٹی وی خسارہ ختم کیا جا سکے ۔ سوال یہ ہے کہ اتنا خوفناک خسارہ کیوں ہوا ؟ جبکہ پی ٹی وی سپورٹس فائدے میں تھا ۔ اتنے خوفناک نقصان کی تحقیقات کب ہونگی؟ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی وی کو نقصان دینے والا ایک شخص اگست 2019 ء میں ڈائریکٹر فنانس کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوا ، بعد ازاں 6 ماہ کی توسیع دی گئی اور اس کا ماہانہ مشاہرہ 3 لاکھ 70 ہزار روپے و دیگر مراعات طے کیا گیا ۔ ایک طرف نقصان کا رونا رویا جا رہا ہے دوسری طرف حالت یہ ہے کہ حال ہی میں بھاری معاوضے پردو تعیناتیاں کی گئی ہیں۔ان کا معاوضہ فی کس 870000 ماہانہ مقرر کیا گیا ۔ پی ٹی وی کے یہ اللے تللے عمران خان کے ویژن کے برعکس ہیں ۔پی ٹی وی ملازمین کا کہنا ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن نہیں دی جا رہی اور 58 سال مکمل کرنے والے ملازمین کو LPR پر بھیجا جا رہا ہے ، پی ٹی وی حکام قومی اسمبلی میں غلط اطلاعات پہنچا رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ چند دن قبل بورڈ کی میٹنگ میں یہ کہا گیا کہ بورڈ اس بات کا مجاز ہے کہ وہ گورنمنٹ کی طرف سے بڑھائی گئی پنشن پر عمل درآمد کرے یا نہ کرے ۔ سرائیکی سنگر ثوبیہ ملک نے کہا کہ آپ کا کالم پڑھ کر حوصلہ ہوا کہ کوئی تو ہے جو وسیب کے مسائل کی بات کرتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ نے درست لکھا کہ ٹیلیویژن صارفین کی اکثریت کیبل نیٹ ورک پر ہے ، ایک غریب آدمی ماہانہ کیبل کا بل الگ سے ادا کرے اور پی ٹی وی کا بل الگ سے خصوصاً ان حالات میں کہ پی ٹی وی ملتان کیبل نیٹ ورک پر نہیں ہے تو اس کے باوجود وصولی کرنا نا انصافی ہے ۔ سرائیکی شاعر عاشق صدقانی نے کہا کہ کالم پڑھ کر دکھ ہوا کہ پی ٹی وی ملتان کی حالت بہت خراب ہے ، آرٹسٹوں کو کوئی کام نہیں دیا جا رہا ، سٹاف بھی پریشان ہے ، صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی وی ملتان کی غفلت کے باعث پروگراموں کی ریکارڈنگ کا سلسلہ بند ہے ۔ فنکار مایوسی کا شکار ہیں ۔ ہمارا وزیر اطلاعات اور وزیر اعظم سے مطالبہ ہے کہ وہ ان مسائل کی طرف فوری توجہ دیں ۔ کرنل (ر) اقبال ملک کا کہنا ہے کہ سیکرٹری اطلاعات انتظامی معاملات چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور وہ پی ٹی وی کے معاملات کی طرف فوری توجہ مبذول کریں گے کہ یہ قومی ادارہ ہے پی ٹی وی کے ساتھ ریڈیو بھی قومی ادارہ ہے کہ حالت امن اور حالت جنگ میں ریڈیو پاکستان کا کردار اہمیت کا حامل رہا ہے۔ سانول سنگت خانپور کے رہنما حبیب اللہ خیال نے کہا کہ پی ٹی وی فیس 35 روپے سے بڑھا کر 100 روپے کرنے کی سمری کو وزیراعظم عمران خان مسترد کر دیں کہ عمران خان سے عام آدمی خصوصاً نوجوانوں کی بہت سی توقعات وابستہ ہیں ۔ کالم میں آپ کا یہ کہنا حکومت کی خصوصی توجہ کا غماز ہے کہ پی ٹی وی کی بیورو کریسی کیونکہ کوئی کام نہیں کرتی ، مفت میں بھاری تنخواہیں وصول کرتی ہیں ۔ اس ادارے میں کرپشن کی طویل داستانیں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ وزیرا طلاعات محترمہ فردوس عاشق اعوان کو بھی اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ اگر پی ٹی وی کو لائسنس فیس دی جا سکتی ہے تو اس سے زیادہ حق تو ریڈیو پاکستان کا بنتا ہے کہ ریڈیو کو اب بھی پی ٹی وی سے زیادہ لوگ سنتے ہیں اور ریڈیو کھیتوں ، کھلیانوں اور جنگلوں میں بھی سنا جاتا ہے ۔ وزیراعظم عمران خان کو نہ صرف پی ٹی وی بلکہ ذرائع ابلاغ سے متعلق تمام اداروں کی طرف توجہ مبذول کرنی چاہئے اور اس بات کو ماننا چاہئے کہ سرکاری و نجی ذرائع ابلاغ موجودہ دور میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ۔