وزیراعظم عمران خان کی صدارت میںہونے والے اجلاس میں پی ٹی وی لائسنس فیس بڑھانے کا فیصلہ موخر ہو گیا ۔ فیصلہ موخر ہونے میں ایک کریڈٹ روزنامہ 92 نیوز کو بھی جاتا ہے کہ تین دن قبل شائع ہونے والے میرے کالم میں پوری تفصیل اور دلائل کے ساتھ لائسنس فیس کے مضمرات پر بات ہوئی تھی ۔ وزیراعظم کی صدار ت میں ہونیوالے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات شبلی فراز نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ وفاقی کابینہ نے پی ٹی وی لائسنس فیس جو کہ 35 روپے سے 100 روپے کی جا رہی تھی کے فیصلے کو آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا ہے ۔ حالانکہ یہ فیصلہ موخر کرنے نہیں بلکہ ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ وزیر اطلاعات نے پریس بریفنگ میں یہ بھی کہا کہ پی ٹی وی ، پی آئی اے اور اسٹیل ملز قومی ادارے ہیں جسے ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے تباہ کیا اور ضرورت سے زیادہ من پسند لوگ ان اداروں میں بھرتی کیے ۔ پہلا سوال یہ ہے کہ پی ٹی وی کے ساتھ پی آئی اے اور سٹیل مل کا بھی نام لیا ، کیا پی ٹی وی کے ساتھ ساتھ پی آئی اے اور اسٹیل مل کو بچانے کیلئے بھی بجلی کے بل کے ساتھ ٹیکس عائد ہوگا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ پچھلی حکومتوں پر تو الزام عائد کر دیا ، لیکن سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کیا کر رہی ہے ۔ میں نے گزشتہ کالم میں تفصیل عرض کی تھی جسے دہرانے سے پہلے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ چٹھی نمبر HP/107/152-B/2640 بتاریخ 17 جولائی 2020ء کے ذریعے مسٹر خرم انور کو ایگزیکٹو پروڈیوسر کرنٹ افیئر تعینات کیا گیا ، جن کی ماہانہ تنخواہ 5لاکھ 5 ہزار روپے کے ساتھ 55 ہزار روپے الاؤنس بھی مقرر کیا گیا ۔ پاکستان کے غریب لوگ یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ایک ایسا ادارہ جو کہ غریبوں کے ٹیکس سے چلایا جا رہا ہو ، اس میں بھاری مراعات پر نئے ملازم رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے دور میں لوٹ مار نہیں ہوئی یا من پسند لوگوں کو نہیں نوازا گیا ۔ ضرورت تو یہ تھی کہ غریبوں کے خون پسینے کے محاصل سے اللے تللے کرنے والوں کا احتساب کیا جاتا اور ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لی جاتی اور آئندہ کیلئے من پسند افراد کو نوازنے سے اجتناب کیا جاتا مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا ۔ میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ پی ٹی وی کی بیورو کریسی نے یہ فیصلہ لوٹ مار کو جاری رکھنے کیلئے کیا ہے ، سابق چیئرمین عطا الحق قاسمی کے دور میں 27 کروڑ روپے کی کرپشن کی ریکوری ابھی تک نہیں ہوئی ۔ موجودہ حکومت بچت کی بات کرتی ہے تو پی ٹی وی پر بچت کی حالت یہ ہے کہ من پسند افسران کو بھی بھاری تنخواہیں دی جا رہی ہیں ، تفصیل اس طرح ہے کہ ہیڈ آف ایچ آر 14 لاکھ روپے ماہانہ ، ہیڈ آف انجینئرنگ 14 لاکھ روپے ، ہیڈ آف نیوز 9 لاکھ ، ہیڈ آف کرنٹ افیئر 9 لاکھ ، اسی طرح ایم ڈی کی مراعات بھی 15 لاکھ سے زیادہ اور چیئرمین کی 20 لاکھ کے لگ بھگ ہیں۔ ایک طرف بھاری تنخواہوں پر تعیناتیاں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف غریب ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن تک نہیں مل رہی ۔ اس موقع پر یہ بھی کہوں گا کہ پی ٹی وی ملتان کو یتیم خانہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے ۔ وسیب کے لوگ میپکو کے ذریعے ہر ماہ 10 سے 12 کروڑ روپے دے رہے ہیں ، پی ٹی وی ملتان کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ۔ پی ٹی وی کو بچانے کیلئے حکومت غریبوں پر بوجھ نہ ڈالے اور اگر ممکن ہو تو 35 روپے فیس بھی ختم کی جائے کہ جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ یہ ٹیکس وہ غریب بھی دے رہے ہیں جو پی ٹی وی نہیں دیکھتے اور وہ بھی دے رہے ہیں جن گھروں میں ٹی وی سیٹ نہیں۔ یہ ٹیکس سراسر بے انصافی ہے ، اسے ختم ہونا چاہئے ۔ پی ٹی وی سے زیادہ لوگ ریڈیو سے وابستہ ہیں پرائیویٹ ریڈیو کے ساتھ ساتھ لوگ ریڈیو پاکستان خصوصاً ریڈیو پاکستان کے ایف ایم ریڈیوز زیادہ سنتے ہیں ، مگر حکومت نے ریڈیو سے توجہ بالکل ہی ختم کر لی ہے اور پی ٹی وی جو کہ من پسند افراد کو نوازنے کا ایک گورکھ دھندہ بن چکا ہے پر زیادہ توجہ مبذول کی جا رہی ہے ۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ریڈیو اپنے منفرد تفریحی، معلوماتی، خبروں اور تبصروں کے پروگراموں کے لیے آج بھی بہت مقبول ہے۔ دنیا میں جدید ٹیکنالوجی جس میں ٹیلیویژن، ڈش انٹینا، موبائیل فون،انٹرنیٹ اور ریڈیو کی مختلف ایپس آنے کے بعد ان کو فریکیونسی ریڈیو کی بقا کے لیے ایک خطرہ تصور کیا جانے لگا تھااور کہا جانے لگا کہ شاید اب ریڈیو ماضی کا ایک حصہ بن جائے گا ۔ تمام تر جدید ٹیکنالوجی کے آنے کے بعد ریڈیو سننے کے آلات میں ضرور تبدیلی آئی ریڈیو نے اپنی شکل تبدیل کرتے ہوئے نئے ٹیکنالوجی کے دور میں خود کو تبدیل کیا لیکن اپنا نام تبدیل نہیں ہونے دیا۔ ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے پروگرام آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہیں۔ بارِ دیگر عرض کروں گا کہ آج بھی پوری دنیا میں ریڈیو کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، خصوصاً کورونا جنگ کے موقع پر ریڈیو کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ نہایت ضروری ہے کہ ریڈیو کو بچانے کے ساتھ ساتھ معاوضے پر کام کرنے والے صدا کاروں ، آرٹسٹوں کو فاقوں کی موت مرنے سے بچایا جانا چاہئے ۔ ریڈیو پاکستان کی آواز صدائے پاکستان ہے ، اسے بند نہیں ہونا چاہئے ۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ریڈیو ٹیلیویژن قومی ادارے ہیں ، ان کو بچانا چاہئے مگر حکومت ان محاسل سے ان اداروں کی مدد کرے جو کہ بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ براہ راست ٹیکس عائدکرنا اس بناء پر بھی زیادتی ہے کہ ابلاغ کا کام پرائیویٹ ذرائع ابلاغ بہتر طور پر سر انجام دے رہے ہیں ۔ کتنا ظلم ہے کہ موجودہ حکومت کے بر سر اقتدار آنے کے بعد پرائیویٹ ریڈیو اور ٹی وی چینلز کی صورتحال ابتر ہو چکی ہے۔پرائیویٹ ادارے اپنے ہی وسائل سے ان اداروں کو چلاتے ہیں مگر موجودہ حکومت نے طرح طرح کی پابندیوں سے ان اداروں کو زچ کر رہی ہے اور حکومت میڈیا کش کی بجائے میڈیا دوست پالیسی اختیار کرے کہ پوری دنیا میں میڈیا وار چل رہی ہے ، پاکستان کو اس وار میں نہ صرف یہ کہ سرکاری ذرائع ابلاغ کو بہتر بنانا چاہئے بلکہ پرائیویٹ ذرائع ابلاغ کی مدد کرنی چاہئے ۔