چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران تمام اسمبلیوں سے اپنی جماعت کے اراکین کے استعفے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں وزرائے اعلیٰ، پارلیمانی لیڈروں اور اہم پارٹی رہنمائوں سے مشاورت کے بعد استعفوں کی تاریخ دینے کا بتایا۔ 3نومبر کو وزیر آباد میں قاتلانہ حملے کے بعد کچھ روبصحت ہونے پر عمران خان نے اسلام آباد کے باہر دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا۔ دھرنے کا مقصد نئے انتخابات کا مطالبہ منوانا تھا۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کرپٹ نظام کا حصہ نہیں بنے گی۔ تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ پی ٹی آئی اگر پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں سے مستعفی ہو جاتی ہے یا پھر اسمبلیاں تحلیل کر دیتی ہے تو موجودہ حکومتی بندوبست برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ صورتحال حال اس لحاظ سے مزید تشویشناک ہو سکتی ہے کہ قومی اسمبلی سے تحریک انصاف پہلے ہی باہر آ چکی ہے۔ وطن عزیز میں جمہوری اقدار اور روایات کی تشریح عام طور پر ملاوٹ شدہ ہوئی ہے۔ کسی منتخب جمہوری حکومت کو ہٹانے کے لیے آج بھی بدعنوانی، انتظامی ناکامی اور کمزور معیشت کی آڑ لی جاتی ہے۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کو اقتدار ملا۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اگرچہ اپنی مدت پوری نہ کر سکے لیکن اسمبلی نے آئینی مدت پوری کی۔ اسی طرح میاں نواز شریف 2017ء میں نا اہل قرار پائے تو باقی ایک سال کی مدت کے لیے شاہد خاقان عباسی کا انتخاب کیا گیا۔ اسمبلی یا وزیر اعظم کا اپنا آئینی مدت پوری نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ وطن عزیز میں جمہوریت مستحکم نہیں اور جمہوری حکومتیں کسی بھی وقت ایک طاقتور مخالف لہر کی نذر ہو سکتی ہیں۔ نظام کی اس کمزوری کو دور کرنے پر توجہ نہیں دی گئی۔ 2018ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف واحد اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ تحریک انصاف کا انتخابی منشور کرپشن کا خاتمہ ، بلا امتیاز احتساب اور ملک کو قرضوں سے نجات دلانا تھا۔ بقول عمران خان انہیں اقتدار میں آ کر معلوم ہوا کہ معیشت کی حالت اس سے کہیں زیادہ خراب ہے جتنی نظر آتی ہے۔ تحریک انصاف کو حکومت بنانے کے لیے مزید ووٹ درکار تھے۔ ایم کیو ایم، ق لیگ اور جی ڈی اے نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کر لیا۔ تحریک انصاف اپنے دعوئوں کے مطابق 50لاکھ گھر تعمیر کر سکی نہ ایک کروڑ ملازمتیں فراہم کر سکی۔ بڑی وجہ ملک کا کورونا وبا کی لپیٹ میں آنا تھا۔ اس کے باوجود اوورسیز پاکستانیوں نے ترسیلات زر میں اضافہ کر کے حکومت پر اعتماد ظاہر کیا، دوست ملکوں نے کڑے وقت میں ساتھ دیا۔ عالمی فورموں پر پاکستان اور اسلام کی نمائندگی کا حق ادا کیا گیا۔ ٹیکسٹائل کی صنعت نے ریکارڈ برآمدات کیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا معاملہ دو وجوہات کی بنا پر متنازع ہوا۔ تحریک عدم اعتماد کامیاب کرانے کے لیے وہی ہتھکنڈے استعمال کیے گئے جو نوے کے عشرے سے مروج ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت ختم ہونے کے بعد پی ڈی ایم کے وہ لوگ حکمران بنے جو عوامی سطح پر ساکھ کھو چکے ہیں۔ پی ڈی ایم نے آتے ہی نیب میں ایسی ترامیم کیں جنہیں عوام نے ناپسندیدہ قرار دیدیا۔ اب حالت یہ ہے کہ حکومت کی ساکھ ہے نہ اس کے باقی رہنے کا اخلاقی جواز۔ تحریک انصاف اسی اخلاقی نکتے کو اپنے حق میں استعمال کر رہی ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے بتایا جا رہا ہے کہ اسمبلیوں سے نکلنے کے معاملے پر تفصیلی مشاورت کے بعد فیصلہ ہو گا۔ ممکن ہے حالات میں ایسی کروٹ آئے کہ پی ٹی آئی کو استعفوں کی ضرورت نہ رہے لیکن پی ڈی ایم حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مکالمے کی گنجائش کا کم ہونا تحریک انصاف کو انتہائی اقدام پر مجبور کر سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عسکری قیادت خود کو مکمل طور پر سیاست سے الگ کر چکی ہے۔ قبل ازیں جب بھی سیاسی قوتوں کے درمیان کشیدگی انتہا پر چلی جاتی تو عسکری قیادت دونوں کو میز پر بٹھا دیتی۔ 2014ء کے دھرنے اور دسمبر 2014ء میں اے پی ایس پر حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل کے لیے عسکری قیادت نے سب میں اتفاق رائے پیدا کیا تھا۔ اس بار ساری ذمہ داری سیاست دانوں کے کندھوں پر آ پڑی ہے۔ نئی صورتحال میں عمران خان کو انتخابات کی تاریخ لینے کے لیے پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ بات کرنا پڑے گی۔ دوسری صورت میں اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے کا انتظار کرنا ہو گا۔ اس صورت حال کا نقصان یہ ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کا احتجاج جاری رہے گا۔ ملکی معیشت نڈھال ہوتی چلی جائے گی۔ حکومت کو لاحق بحران ریاست کی طرف آنے لگیں گے۔ مسئلہ عمران خان کے ساتھ لانگ مارچ اور دھرنے میں شریک لوگوں کی تعداد کا نہیں۔ عمران خان کے مؤقف کی عمومی حمایت بڑھنے کا ہے۔ اس بات کو اہمیت دی جانی چاہیے کہ ایک مقبول سیاسی رہنما جب اپنی جماعت کو اسمبلیوں سے نکالنے کا اعلان کرتا ہے تو اس پر سنجیدگی سے توجہ کیوں نہیں دی جاتی۔ جمہوریت میں اکثریت کی رائے کا احترام ہوتا ہے۔ اکثریت کی منشا کو ہی اختیار سمجھا جاتا ہے۔ اکثریتی نمائندے اسمبلیوں سے نکل گئے تو اسمبلیاں مذاق بن کر رہ جائیں گی۔