کہتے ہیں بھٹو اتنے زیرک تھے کہ وزراء کی فائلیں اپنے پاس رکھتے تھے اور وقت آنے پر وزیر کی فائل منگواتے اور وزیر کو باور کرواتے کہ اس کے سارے کرتوت ان کے علم میں ہیں۔ ایک مرتبہ انہیں معلوم ہوا کہ ایک وزیر نے انارکلی میں کوئی پراپرٹی خریدی ہے۔ بھٹو نے اس وزیر کو بلایا اور پوچھا کہ اس کی کتنی زمین ہے پتہ چلا کہ ایک آدھ مربع ہے ۔ بھٹو کہنے لگے کہ کیا آپ کی زمین میں زعفران اگتی ہے۔ وزیر شرمندہ سا ہو کر کہنے لگا ’’نہیں‘‘ بھٹو نے کہا پھر’’آپ نے انارکلی میں اتنی مہنگی پراپرٹی کیسے خریدی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حکمرانوں کو سب پتہ ہوتا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے اور کیا بنا رہا ہے۔ صرف چشم پوشی کی جاتی ہے بلکہ بعض تو ترغیب بھی دیتے ہیں اور پھر اپنے حصے کا انتظار بھی کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا دور ہی دیکھ لیں سرے محل سے لے کر برطانیہ سے خریدا گیا بے نظیر کا مہنگا ترین ہار اور پھر سوئس بنک اکائونٹس۔ اور تو اور خاتون اول ترکی کا سیلاب امداد میں دیا گیا قیمتی ہار بھی یوسف رضا گیلانی شاہ صاحب کی بیگم کے گلے میں پورا آ گیا۔ بڑی طویل فہرست ہے۔ ان کو تو آفات کے دنوں میں کوئی نقد امداد دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ مگر جب امداد میں کمبل اور کھجوریں بھیجی گئیں تو وہ بھی بازاروں میں بکنے لگیں۔ بے چارے اجڑ ے اور بے گھر لوگ کھلے آسمان تلے حکمرانوں کی راہ تکتے رہے۔ انہوں نے تو آفت زدہ لوگوں کے لئے جعلی کیمپس بھی لگوائے۔تھر کا منظر کس کو بھولے گا کہ مرتے ہوئے بھوکے بچے اور قائم علی شاہ کی شاہی دعوت سب سے بڑھ کر ان کا بیان کہ بچوں کا مرنا کوئی نئی بات نہیں۔ میں لکھتا جائوں گا ان کی بوالعجیاں ختم نہیں ہونگی۔ ن لیگ تو تھی محکمہ فوڈ‘ کھد‘ پائے ‘ نہاری حریسہ اور بونگ خوش خوراک تو خیر زرداری صاحب بھی ہیں۔ ایک کلو بھنڈیاں منگوانے کے لئے طیارہ اڑایا جا سکتا ہے۔ نواز شریف صاحب تو غیر ملک تعزیت کے لئے گئے تو بھی وہاں کے کباب طلب کئے اور بعدازاں اس باورچی کو ہی ساتھ لے آئے۔ اس تناظر میں آپ عمران خاں کو دیکھیں تو سچ مچ حیرت ہوتی ہے۔ وہ تو سامنے بیٹھے بندے کو چائے نہیں پوچھتا۔ اب اس نے وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لیا ہے تو یہ بالکل عجیب سا لگتا ہے۔ آپ اسے جو مرضی کہیں کہ جائزہ تو خود ہی لیا ہے یہ جائزہ اپوزیشن لے تو بتائے۔ انہوں نے تو سب ٹھیک کی خبر دے دی ہے۔ یہ ساری باتیں مان لی جائیں تو پھر بھی یہ کم نہیں کہ وزراء کو لائن حاضر تو کیا گیا ہے اس میں رعایت بھی دی گئی ہے تو کوئی بات نہیں۔ وزرا کے اندر ایک احساس تو پیدا ہو گا۔ وہ آئندہ سچ مچ کام کروائیں گے اور اپنی کارکردگی دکھائیں گے۔ مخالفین تو سو دنوں کو لے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ آج اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ سو دن تو صدارتی نظام میں ہوتے ہیں پارلیمانی نظام میں نہیں۔ انہیں کچھ وقت دینا چاہیے تاکہ وہ اپنی سمت نمائی کر سکیں۔ ہاں ایک بات ہے کہ اب عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو طعن و تشنیع سے نکل کر کوئی کام کر دکھانا چاہیے وہ کرپشن کو عملی طور پر ختم کریں اور جانے والوں کی کرپشن عملی طور پر سامنے لائیں۔ ابھی ’’راجہ رینٹل ‘‘کا ساتھی بھی اس کا وعدہ معاف گواہ بن گیا ہے۔ بہت کچھ سامنے آئے گا۔ ازہر درانی یاد آ گئے: شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی مگر کیا کیا جائے‘جہاں نظام ایسا ہو کہ سب سے بڑا لٹیرا سربراہ مملکت بن جائے جہاں حریص اپنا حصہ حاصل کرنے کیلئے اس کے دست و بازو بن جائیں۔ ایک منظر آپ دیکھتے نہیں کہ کیسے عمر رسیدہ اور گھاگ سیاستدان بلاول کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ سب طفیلی ہیں اور اکاس بیل کی طرح رس چوسنے والے۔ پیپلز پارٹی پوری کوشش کے باوجود ان سے چھٹکارا نہ پا سکی۔ ایک زرداری پارٹی پر ایسا بھاری ہوا کہ وہ بیٹھ ہی گئی۔ اسی طرح نواز شریف اور آگے ان کی آل اولاد سب مغلیہ بادشاہ ہی تھے اور ہیں۔ سب نے ملکی وسائل اپنے لئے استعمال کئے۔ آپ سکیورٹی ہی کو لے لیں آدھی پولیس تو (ن) کے خانوادے کے لئے تھی۔ اب آپ عمران خان کو دیکھیں تو آپ کو فرق نظر آ جائے گا۔عمران خاں نے وزراء سے اتنی طویل پوچھ گچھ کی۔ اتنا سٹیمنا کس میں ہے۔ وگرنہ ہم نے پچھلے حکمرانوں کو دیکھا کہ وہاں ’’نازک مزاج شاہاں‘ درست بیٹھتا ہے کہ وہ تو کوئی فائل دیکھنا بھی ایک بوجھ سمجھتے تھے۔ موجودہ وزراء کے جائزے کو اتنا ہلکا نہیں لینا چاہیے ہر سہ ماہی جائزہ ضرور مفید ثابت ہو گا۔ اس سے لوگ بھی اپنے جائزے پیش کریں گے وزراء کارکردگی نہیں دکھائیں گے تو گھر جائیں گے۔ نظام کو نئے سرے سے سیٹ کرنے کیلئے پہلے نظام میں کچھ نہ کچھ رکاوٹ تو ڈالنا پڑتی ہے۔ چلیے اب ایک مزیدار خبر کہ جناب مرزا شاہی ابھی حیات ہیں۔ انہوں نے اپنے انتقال کی خبروں کو بقلم خود رو کر دیا ہے۔ وہ سینئر اداکار ہیں۔ وہ کامیڈی کرتے ہیں اور اب بھی لوگوں کو ہنسا رہے ہیں۔ انہوں نے اب بھی سب کو ہنسا دیا ہے کہ تمام بدخواہوں کی امیدوں پر پانی ڈال دیا ہے۔ خود کو زندہ ہوتے ہوئے زندہ ثابت کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ یہاں ایک کیس آ چکا ہے کہ ایک شخص اتھارٹیز کے سامنے حاضر ہوا کہ وہ زندہ ہے اور اس کی پنشن بحال کی جائے۔ محکمہ نے کہا کہ اسے اپنے زندہ ہونے کا سرٹیفکیٹ لانا پڑے گا کیونکہ کمپیوٹر میں وہ مر چکا ہے۔ آنیوالے نے اصرار کیا مگر محکمہ نہیں مانا کہ انہیں اب کاغذوں میں بھی زندہ ہونا ہے۔ یقینا اس کے لئے آنے والے کو شہادتیں بھی ڈالنا پڑیں گی۔ مرنے کا ایک تجربہ کچھ یہ بھی ہے: یہ کیا ہوا کہ اک مرے مرنے کی دیر تھی یک دم ہی جی اٹھے مرے دشمن مرے ہوئے پھر آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف۔بات یوں ہے کہ صرف جائزہ ہی نہیں ہونا چاہیے کام بھی ہونا چاہیے۔ دوسرا جائزہ مہنگائی کا بھی لینا چاہیے۔ غریبوں سے بھی پوچھ لیں کہ وہ کن حالات میں جی رہے ہیں۔ ان سے آٹے تیل کا پوچھیں تو سہی‘ پھر عارف پروہنا یاد آ گیا: آٹا مہنگا تیل وی مہنگا ہن سجناں دا میل وی مہنگا عام آدمی کی دوڑ تو اسی روز مرہ تک ہے۔ ضروریات تو منہ کھولے کھڑی ہیں۔ لوگوں کی پریشانیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ آپ کے جائزے اپنی جگہ مگر ان کی حالت زار کا بھی کوئی جائزہ لے۔ عدیم نے کہا تھا: غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر ہم بھی تو اسی مقصد کے لئے لکھتے ہیں کہ چلو لوگوں کا کتھارسز بھی ہو جاتا ہے اور ہم بھی ذرا ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگے ہیں۔