پی ٹی وی کی 58ویں سالگرہ سے پہلے موجودہ سیاسی صورتحال پر بات ہو جائے کہ عمران خان لانگ مارچ کی صورت میں پنڈی پہنچے اور جلسہ کرنے کے بعد سب گھر چلے گئے، دھرنا نہ ہوا۔ تمام اسمبلیوں سے استعفیٰ کے اعلان کو عمران خان کی طرف سے پنڈی کا سرپرائز کہا جا رہا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ صرف اعلان ہے، استعفے نہیں دیئے گئے اور اعلان کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ وزرائے اعلیٰ سے مشاورت ہو گی۔ قومی اسمبلی کے جن ارکان اسمبلی نے استعفے دیئے اُن میں سے کچھ کے ضمنی الیکشن ہو گئے البتہ فواد چودھری سمیت باقی دیگر اب بھی سرکاری رہائش گاہیں اور مراعات حاصل کئے ہوئے ہیں۔ دیکھا جائے تو عمران خان کی طرف سے نئے الیکشن کا مطالبہ کوئی ایسا مطالبہ نہیں ہے جسے نہ مانا جائے۔ یہ وہ مطالبہ ہے جو کہ پی ڈی ایم بطور اپوزیشن خود کرتی رہی ہے۔ پوری قوم پریشان ہے۔ اعظم سواتی کو پھر گرفتار کیا گیاہے۔ شہباز گل نے خواتین کی موجودگی میں جو الفاظ استعمال کئے نا پسند کیا گیا۔ صحافیوں کو بھی دھکے دیئے گئے پوری قوم پریشان ہے۔ بہتری کا سوچا جائے۔ بہتر یہی ہے کہ بلا تاخیر الیکشن کا اعلان کر دیا جائے لیکن ایسا لگتا ہے کہ ابھی بحران بڑھے گا، اگر عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ سے استعفیٰ دلوا بھی دیئے تو خیبرپختونخواہ میں نیا گورنر پیش بندی کے طور پر لایا گیا ہے کہ گورنر استعفیٰ کے آنے سے پہلے وزرائے اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا کہہ دیں گے۔ صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو یہ اقتدار کی جنگ ہے اور اس میں غربت، بیروزگاری اور مہنگائی سے کچلے گئے عام آدمی کی بہتری کیلئے کوئی نہیں سوچ رہا۔ ہمارا مشورہ ہے کہ اصلاح احوال کے بارے میں سوچا جائے اور عمران خان کو دیوار سے نہ لگایا جائے اور اس حقیقت کو بھی سامنے رکھا جائے کہ عمران خان آج جو باتیں کر رہے ہیں۔ موجودہ پی ڈی ایم کے لوگ یہی باتیں پہلے کرتے رہے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ بیان خوش آئند ہے کہ فوج اب سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اس پر سختی سے عمل ہونا چاہئے تاکہ ملک و قوم کی بہتری ہو سکے اور پاکستان میں حقیقی جمہوریت قائم ہو۔ اب ہم پی ٹی وی کی 58ویں سالگرہ کی طرف آتے ہیں تو یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ پی ٹی وی روزبروز روبہ زوال ہے۔ ہر دور میں من پسند لوگوں کو پی ٹی وی میں لایا جاتا ہے۔ اُن کیلئے بھاری معاوضے مقرر ہوتے ہیں۔ من پسند لوگوں کو ترقیاں ملتی ہیں اور پی ٹی وی میں کوئی کام نہیں ہوتا۔ آج بھی ریکارڈ اُٹھا کر دیکھ لیں پروڈیوسروں کی فوج ظفر موج موجود ہے مگر پروڈکشن نہیں ہے۔ ایک وقت پی ٹی وی پر ڈرامے چلتے تھے تو ٹی وی سکرین کے سامنے لوگوں کا جم غفیر موجود ہوتا تھا۔ اب افسران بہت ہیں مگر کام کوئی نہیں کر رہا۔ یہ حقیقت ہے کہ جب پی ٹی وی دنیا کے ٹی وی چینلوں سے آگے تھا تو اُس وقت نصرت ٹھاکر، خاور حیات، ایم عظیم، قنبر علی شاہ، قاسم پاشا، حیدر امام، اقبال حیدر اور اس طرح کے نامور لوگ موجود تھے مگر اب ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ موجودہ دور میں انتخاب غلط ہوا ہے یا چنائو کرنے والوں میں وہ اہلیت نہیں تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جہاں من پسند کی بات آئے تو پھر اصول، میرٹ، تجربہ، صلاحیت اور سب کچھ ثانوی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہی ظلم پی ٹی وی کے ساتھ ہوا ہے۔ گزشتہ روز ملتان سے پی ٹی وی کے مقامی پروگراموں کی بندش پر ہم ایک وفد کے ساتھ ہم جی ایم پی ٹی وی ملتان ہارون جمالی صاحب سے ملے انہوں نے تسلی کرائی کہ بہت جلد مقامی پروگرام شروع ہو جائیں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ صرف ملتان کے نہیں بلکہ دیگر سینٹروں کے بھی مقامی پروگرام کورونا اور سیلاب کی وجہ سے بند ہیں۔ ظاہر ہے اُن کا یہی منصب تھا اور انہوں نے بجا طور پر اپنے ادارے کی وکالت کی مگر ہمیں یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ سٹوڈیو اور پروگراموں کی ریکارڈنگ کے لئے کروڑوں روپے مالیت کی مشینری خراب ہونے پر ملتان پی ٹی وی منصوبہ ختم ہونے کاخطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہیڈ کوارٹر کی ناقص پالیسی کے تحت مقامی ٹرانسمیشن کے لئے پروگراموں کی ریکارڈنگ کو بھی بند کر دیا گیا ہے جس سے ملتان پی ٹی وی منصوبہ عملاً غیر فعال ہو چکا ہے۔ میپکو کا ریکارڈ گواہ ہے کہ لوگ ہر ماہ بجلی بلوں کے ذریعے 12 سے 15 کروڑ روپے سے زائد پی ٹی وی کو دے رہے ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے بدلے کیا مل رہا ہے ۔ سابق وزیراعظم عمران خان جب بر سر اقتدار نہیں تھے تو ان کے خطاب کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں وہ پی ٹی وی کے خلاف دھواں دھار تقریر کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پی ٹی وی ٹیکس کی مد میں جو اربوں روپیہ ہر سال غریبوں سے وصول کیا جا رہا ہے یہ پی ٹی وی کے افسران یا حکومت کے باپ کا نہیں یہ غریب عوام کا پیسہ ہے اور غریبوں کو اس کا فائدہ ملنا چاہئے۔ عمران خان بر سر اقتدار آئے نہ صرف کہ کوئی بہتری نہ ہوئی بلکہ پی ٹی وی کے حالات مزید خراب ہوئے۔ موجودہ وزیر اطلاعات محترمہ مریم اورنگزیب تجربہ کار ہیں ان کو بہتری کی طرف توجہ دینی چاہئے یہ بھی حقیقت ہے پاکستان ٹیلیویژن کا آغاز 26 نومبر 1964 ء کو ہوا۔سالگرہ کے موقع پر پی ٹی وی کے تمام سنٹروں کو دولہن کی طرح سجایا جاتا ہے ۔ تمام سنٹروں پر کیک کاٹے جاتے ہیں اور تمام سنٹروں سے پاکستان میں بولی جانیوالی زبانوں میں گیت اور نغمات نشر کئے گئے ۔ سپیشل ٹرانسمیشن میں پی ٹی وی ہوم کوئٹہ ، پشاور، اسلام آباد، لاہور ، مظفر آباد اور کراچی سنٹر سب موجود ہیں۔ وسیب کے کروڑوں افراد خصوصاً وہ دیہات جہاں کیبل نہیں اور وہاں پی ٹی وی کے علاوہ کوئی دوسرا چینل نظر نہیں آتا، کے ذہن پر کیا گزرتی ہے؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔