پاکستان اسلام کے نام پر دنیا کے نقشے پر پہلے ملک کے طورپر معرض وجود میںآیا۔ قوم گزشتہ 72برسوں سے یہاں اسلامی مساوات اور عدل کے نظام کی آس لگائے بیٹھی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں کی پیاس بڑھتی جا رہی ہے۔تحریک انصاف نے عوام کی آنکھوں میں ریاست مدینہ کے خواب سجا کر مسند اقتدار حاصل کی۔ عمران خان اسلام آباد میں اپنے 126دن کے دھرنے کے دوران عوام کو ریاست مدینہ کی برکتیں اور خصوصیات بیان کیا کرتے تھے۔ ایسی ریاست جہاں سماجی انصاف ہو‘ دو نہیں ایک پاکستان۔ انسانی حقوق پر مبنی ریاست جہاں غریب اور امیر کے لئے ایک قانون ہو ۔کوئی قانون سے بالاتر نہ ہو یہاں تک کہ قوانین بنانے والے بھی۔ عمران خاں کی کوئی تقریر ایسی نہ تھی جس میں وہ حضرت علیؓ کا قول نہ دھراتے ہوں کہ ’’ کفر کی حکومت چل سکتی ہے ظلم کی نہیں‘‘۔ ریاست مدینہ کی بنیاد سماجی مساوات، عدل اور احتساب پر استوار کی گئی۔ ان اصولوں کو کلمہ حق کہنے والوں نے اپنی اولادوں، جانوں سے مقدم رکھا۔ ریاستیں مگر دعوئوں اور وعدوں سے ہی وجود میںآیا کرتی ہیں نہ سماجی مساوات پر مبنی ریاست کسی بھی بٹن کو آن کرنے سے روشن ہو سکتی ہے۔ ریاست مدینہ تو دور کی بات ہے صرف ریاست ہی پیچیدہ ڈھانچوں اور متوازی مفادات کا مجموعہ ہوتی ہے۔یکساں انسانی حقوق‘ سماجی معاشی اور سیاسی انصاف کا تقاضا کرتے ہیں کسی بھی معاشرے میں یہ ایسی بنیادی تبدیلی ہوتی ہے جس کو سماج کے مراعات یافتہ طاقتور گروہوں، یہاں تک کہ ریاستی اداروں کی جانب سے بھی مزاحمت کا سامنا ہوتا ہے۔ سماجی انصاف پر مبنی معاشرہ ہمیشہ انسانوں کی منزل رہا ہے۔ ایسے معاشرے کے قیام کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت بھی موجود رہتی ہے۔ سماجی مساوات پر مبنی معاشرہ کی تشکیل عدل و انصاف کے بنیادی تقاضوں پر مبنی معاشرے کے قیام کے لئے مسلسل جدوجہد ہے یہ محض نعروں اور وعدوں کا نام نہیں جوں جوں وقت گزر رہا ہے تحریک انصاف کے وعدوں پر سے عوام کا اعتماد اٹھتا اور مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ شک یقین میں بدلتا جا رہا ہے کہ اس بار بھی احتساب کے نام پر ہاتھ ہو گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے نے عمران ایسے مرد آہن اور مرتے دم تک کا حوصلہ رکھنے والے کو میاں نواز شریف کے لئے مصلحت کا دروازہ کھولنے پر مجبور کر دیا۔ مصلحت ایسی ڈھلوان ہے جہاں سے ایک قدم لڑکھڑا جانے کی دیر ہوتی ہے پھر جتنا بلند ارادہ ہو اتنی ہی تیزی سے انسان پستیوں میں گرتا ہے۔ یہ طاقتور گروہ ہر حکمران کے گرد جمع ہوتے ہیں اور خوش آمد اور قانون کی موشگافیاں ان کا ہتھیار ہوتی ہیں انہی ہتھیاروں نے عمران کو بھی گھائل کر دیا اس حد تک گھائل کہ آنکھوں پرفریب کا پردہ آن پڑا ہے جو نواز شریف کے لئے کھولا گیا ۔مصلحت کا دروازہ احتساب کے پشتوں میں سوراخ ثابت ہوا اور کرپٹ مافیا احتساب کے اس رستے سوراخ کو پھیلاتا جا رہا ہے۔ نواز شریف کے بعد مریم نواز پھر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اسی مصلحت سے فیضاب ہو ئے۔فضل الرحمن کے بعد آرمی چیف کی توسیع کے چیلنج نے مصلحت کی ڈھلوان سے لڑھکتے احتساب کی رفتار کو مزید بڑھا دیا ہے۔ رہی سہی کسر خود عمران کی صفوں میں طاقتور اشرافیہ کے مفاداتی موقع پرستوں نے بڑی خاموشی سے وفاقی کابینہ سے احتساب آرڈیننس 2019ء کی منظوری حاصل کر کے پوری کر دی ہے یہ آرڈی ننس نیب کے دانت نکالنے کی جانب حتمی ہدف تھا، حاصل کرلیا گیا۔ اس آرڈی ننس میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں یہ کرپٹ اشرافیہ کے لئے طلسمی دروازہ ثابت ہوں گی۔ اس بات سے عوام بے خبر ہیں نا عمران خان کہ سیاسی اشرافیہ کی لوٹ مار ریاستی بیورو کریسی کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔ شریک ملزم کو چھوڑنے کا مطلب مجرم کی رہائی کی راہ ہموار کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ پہلی بات تو یہ 50کروڑ سے کم کرپشن کیا کرپشن نہیں ہوتی اور دوسری بات یہ کہ تین ماہ میں تحقیقات مکمل نہ ہونے کی صورت میں رہائی بے گناہی کا سرٹیفکیٹ نہیں تو اور کیا ہے۔عمران سازشی عناصر کی چالوں بار ے ا پنے کا علم دعویٰ ترک ڈرامے ارطغرل کو دیکھنے سمجھنے کی صورت میں کرتے رہے ہیں مگر اتنی چھوٹی سی سازش نہ سمجھ سکے کہ سابق صدر مشرف کو این آر او دینے کی راہ دکھانے کے لئے دس برسوں میں مقدمات کے الزام ثابت نہ ہونے کا جواز اسی اشرافیہ نے گڑھا تھا۔سابق صدر یہ اعتراف کرچکے ہیںکہ ان کو چال کا ادراک نہ ہو سکا ۔یا پھر یوں کہیے کہ اقتدار کی خواہش نے آنکھوں پر فریب کی پٹی کا کام کیا ۔عمران مر جانے مگر این آر او نہ دینے کا دعویٰ کرتے رہے۔ یہی مگر نشہ انکار میں ان ہاتھوں سے ہی کرپٹ اشرافیہ نے رہائی کے پروانے پر دستخط کروا لئے۔ پہلے بیورو کریسی احتساب کے شکنجے سے نکلے گی پھر سیاستدان: اسے یقین ہے بے ایمانی بن وہ بازی جیتے گا اچھا انسان ہے پر ابھی کھلاڑی کچا لگتا ہے عمران خان سیاسی اشرافیہ اور بیورو کریسی کے کرپٹ نظام کو شکار کرنے نکلے تھے اسے خوش آمد کا کمال کہیے یا خود فریبی کی کرامت کہ شکاری خود چال میں پھنس چکا ہے۔ احتساب کا وعدہ ایک بار پھر سراب ثابت ہوتا ہوامحسوس ہوتا ہے۔ عوام نے عدل و انصاف پر مبنی جس ریاست مدینہ کے ماڈل کے قیام کے لئے کڑے احتساب کے لئے ووٹ دیے تھے یہ پیاس بجھتی محسوس نہیں ہوتی اس کی وجہ یقینا یہ ہے کہ: پیاس جس نہر سے ٹکرائی وہ بنجر نکلی جس کو پیچھے چھوڑ آئے وہ دریا ہو گا