ماضی میں دو ٹرینوں کا شہرہ سنا۔ ایک کی کہانی تو مشہور مزاح نگار شوکت تھانوی مرحوم نے اپنے افسانے ’’سودیشی ریل‘‘ میں لکھی۔ اور یہ مرحوم کے مشہور ترین افسانوں میں سے ایک ہے۔ برسبیل تذکرہ راقم نے بہت سے احباب کو ’’ھو‘‘ کا لفظ ’’جَو‘‘ کے وزن پر پڑھتے بولتے سنا۔ اس طرح تو سودیشی ریل کے معنے سو ملکوں کی ریل کے ہو جائیں گے۔ اصل میں یہ لفظ سَو ہے یعنی وائو پر زبر کے ساتھ اور اس کے معنے اپنا یا اپنی کے ہیں چنانچہ سودیشی سے مراد ہے وہ ٹرین جو اپنے ملک کی ہے۔ عوامی زبان میں دیسی ٹرین۔ دوسری ایوب خاں کی وہ بدنام زمانہ ٹرین جو انہوں نے ’’عشرہ بربادی‘‘ کے نام سے چلائی تھی( نام تو کچھ اور تھا لیکن مجھے ایسا ہی یاد پڑتا ہے) اب ایک تیسری ٹرین آ گئی ہے۔ امید بلکہ یقین ہے کہ یہ شہرت میں پہلی دو ٹرینوں سے بڑھ کر ہو گی اگرچہ اس کا خاکہ لکھنے کو اب کوئی شوکت تھانوی موجود نہیں۔ اس ٹرین کی ہر شے شاہانہ ہے۔ دو سیلون ہیں‘ دونوں شاہانہ۔ دونوں میں ڈبل بیڈ سجے ہیں۔ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ بھی شاہانہ ہیں‘ کچن ہے‘ باتھ روم ہے‘ خطاب کرنے کے لئے دروازے کے ساتھ روسٹرم ہے‘ کانفرنس روم ہے اور سب شاہانہ۔ یاد رہے کہ شاہانہ کا ترجمہ آج کل سادگی اور کفایت شعاری سے کیا جاتا ہے۔ اس ٹرین کی ضرورت کیوں پڑی۔ خیال ہے کہ شاید عوامی مہم چلانے کا ارادہ ہو اور اس سے پہلے ٹرین مارچ ہو گا۔ ایوب خاں نے جو عشرہ بربادی ٹرین چلائی تھی اس میں موصوف خود نہیں تھے‘ ان کے درباری البتہ ان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ یہ ٹرین تو جب چلے گی تب چلے گی‘ فی الحال آپ انتظار فرمائیے۔ درباری قلم کار اور صدا کار کب اس ٹرین کے فضائل پر سمع و بصر کی تفریح کا سامان کرتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ موجودہ حکومت کا یہ امتیاز بہرحال ماننا پڑے گا کہ جتنے فنکار درباری ملے ہیں‘ ماضی کے کسی شہنشاہ کو نہیں ملے۔ ایک سے ایک سخنور دربار ہال میں طوطی مقال بنا موجود رہتا ہے۔ حالیہ ہفتے عشرے میں تو سخنوروں نے راگ درباری کی ساری تانیں توڑ ڈالیں۔ پہل ایک کالم نویس نے کی‘ فرمایا مبارک ہو‘ ایشیا کو چرچل مل گیا۔ دوسرے نے بڑھ کر گرہ لگائی‘ لوگو‘ دیکھو برصغیر کو اس کا ڈیگال مل گیا۔ تیسرے نے ٹیپو سلطان کا تاج اٹھا کر سر پر رکھ دیا۔ چوتھے نے شاہ کو نوبل انعام دینے کی قرار داد پیش کر دی۔ پھر داد طلب نظروں سے یوں دیکھا جیسے کہہ رہا ہو ع کوئی کہہ دے میرے سہرے سے بڑھ کر سہرا پانچویں کے جوش نے انگڑائی لی تو اس نے اس سہرے کو مات کرتے ہوئے ’’قصیدہ واڈیہ‘‘ پڑھ ڈالا۔ پروگرام کی میزبان ھائیں ھائیں کرتی رہ گئی اور یہ صاحب ہر ھائیں ھائیں پر ہاں ہاں کہتے رہے ۔ پھر ادھر ادھر سے خوف فساد خلق کے اشارے گئے تو یہ خبر چلی کہ قصیدہ ’’واڈیہ‘‘کے پیش کار کو فہمائش کی ہے کہ بھئی محتاط رہا کرو۔ زمانہ نازک ہے۔ ٭٭٭٭٭ چودھری نثار نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ٹی وی پر کم آیا کریں۔ لیجیے جناب‘ اگر روز روز ٹی وی پر نہیں آنا ہے تو پھر مزا ہی کیا ہے۔ خیر‘ مزید مشورہ یہ دیا کہ روز روز خطاب میں بھارت سے ترلے منت کر کے امن کی بات کرنے سے کوئی اچھا پیغام نہیں جاتا‘ کمزوری کا تاثر ملتا ہے۔ یہ مشورہ کہاں مانیں گے لیکن بات کچھ ایسی ہی ہے۔ ہم نے ان دو اڑھائی ہفتوں میں’’امن‘‘ کا ترانہ کچھ زیادہ ہی بجا دیا ہے۔ ستر برسوں میں ہماری طرف سے امن کی اتنی دہائی نہیں دی گئی جتنی ان چند دنوں میں دے ڈالی۔ بھارت اسے کمزور ہی سمجھ رہا ہے اور اس کی تصدیق ان خبروں سے ہوتی ہے کہ پاکستانی طرز عمل کی بات کر کے وہاں کی مودی سرکار ووٹروں پر اپنا رعب ڈال رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ مودی کی یہ مہم کامیاب جاری ہے۔ کہاں چند ہفتے پہلے کا سماں کہ پانچ ریاستوں میں شکست کے بعد عام الیکشن میں بھی بی جے پی کے ہارنے کا یقین سا ہو چلا تھا اور کہاں یہ کہ ہونے والے تمام سروے بی جے پی اتحاد کو کانگرس سے بہت آگے دکھا رہے ہیں۔ تمام سروے کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی کو دو سے تین سو کے قریب سیٹیں ملیں گی اور کانگرس ڈیڑھ سے دو سو تک نشستوں پر جیتے گی۔ سب سے بڑی ریاست یوپی میں نصف سے زیادہ سیٹیں بی جے پی کو ملنے کی پیش گوئی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ سروے غلط نکلیں لیکن فی الحال بی جے پی کانگرس سے ایک تہائی ضرور آگے جا رہی ہے۔ بی بی سی کا تبصرہ ہے کہ حالیہ بحران سے بھارت اور بی جے پی کو جو چاہیے تھا‘ وہ اسے مل گیا ہے۔ چودھری نثار کا یہ کہنا ٹھیک ہی لگتا ہے کہ بھارت اور دنیا میں ہمارے خوفزدہ ہونے کا تاثر جا رہا ہے اور اسی خوف کی وجہ سے مدرسوں کے خلاف کارروائیوں میں بھی تیزی آ گئی ہے۔ ٭٭٭٭٭ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے کہ نواز شریف کو کچھ ہوا تو ذمہ دار حکومت ہو گی۔ حکومت کیسے ذمہ دار ہو گی جب کہ اعتزاز احسن کہہ چکے ہیں‘ جیل میں نواز شریف کو کچھ ہوا تو ذمہ دار خود نواز شریف ہوں گے۔ ریاست خورشید شاہ کی نہیں سنے گی۔ وہ اعتزاز احسن ہی کی سنے گی۔ انصاف کے لئے انہی کا ڈاکٹرائن عرصہ دو سال سے چل رہا ہے اور ڈاکٹرائن یہ ہے کہ معاملہ کوئی بھی ہو‘ باربر گردنِ شریف۔ بار ثبوت سے لے کر بارمرگ تک‘ جملہ باربرداری شریف ہی نے کرنی ہے۔ ان کے لئے ہر اچھا ہسپتال حاضر ہے لیکن علاج ؟ اس میں رکاوٹ بھی کوئی نہیں‘ خود ان کی اپنی جماعت‘ خاص طور پر ان کے برادر خورد اور بھتیجائے کلاں‘ پردہ گرنے کے منتظر ہیں۔