پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی، اس وقت بظاہر دوراہے پر لگتی ہے۔ اس نے اپنے لیے راستے کا انتخاب کرنا ہے جس میں ایک طرف حزب اختلاف کا منہ زور ور ہَتھ چْھٹ قسم کا اتحاد، پاکستان جمہوری تحریک، ہے جو موجودہ پارلیمان کو ناجائز قرار دے کر اسے رخصت کرنے کے درپے ہے تو دوسری طرف اس کے، بطورسیاسی پارٹی ، اپنے مفادات ہیں جن سے فرار ممکن نہیں۔ پاکستان جمہوری تحریک کی تخلیق اور اسکے مقاصد واضح ہیں اور یہ بھی کہ اس حکومت مخالف تحریک کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما ہیں۔ حکمت عملی یہ ہے کہ میں نہ مانوں کی گردان پڑھی جائے ، مظاہرے اور جلوس نکالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے پائے۔ ویسے دیکھا جائے تو ایشیائی ملکوں کے سماج کا پورا عکس نظر آتا ہے ۔اس دس رکنی حزب اختلاف کے اتحاد میں کہ یا تو مخالفت کا بوجھ ہی نہ اٹھایا جائے ور اگر یہ بار گراں سرپر آن ہی پڑا ہے توپھر دشمن کو اس کے گھر تک نہ چھوڑا تو پھر مخالفت کرنے کا فائدہ تو نہ ہوا نا! پیپلز پارٹی چونکہ صو بہ سندھ، میں پچھلے تیرہ سالوں سے مسلسل حکمرانی کرتی چلی آرہی ہے، اس کا مفاد اسی میں ہے کہ نظام کو چلتے رہنا چاہیے۔ قبل از وقت انتخابات ہمیشہ جوا ہوتے ہیں، وہی سیاسی پارٹیاں ہی اس کے حق میں ہوتی ہیں جن کے پاس کھونے کو کچھ نہ ہو۔یوں، اگر پیپلز پارٹی پی ڈیم ایم کے دوسرے ممبران کی قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کی تجویز کی مخالفت کی ہے تو اس میں کوئی اچھنبے کی بات ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی اس معاملے پر پارٹی اور اسکی قیادت کے لِتے لینا بنتا ہے۔ تہذیب اور شائستگی کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا نہیں بنتا اور وہ بھی یوں کے پچھلے تیرہ سالوں کی رفاقت کو ہی کوڑے دان میں پھینک دیا جائے۔ آخر پیپلز پارٹی ایک آزاد اور خود مختار پارٹی ہے، اپنے مفادات کا خیال اگر اس نے خود نہیں رکھنا تو اور کون رکھے گا؟ دوسری طرف، اگرچہ پی ڈی ایم نے پیپلز پارٹی کے اس استدلال کو نہیں مانا کہ کہ چھبیس مارچ کا مجوزہ لانگ مارچ اور قومی اسمبلی سے استعفوں کے معاملے کو علیٰحدہ رکھا جائے لیکن اس نے یہ بھی نہیں کیا کہ باقی نو پارٹیوں کے فیصلوں کو عملی جامہ پہنا دے۔ یوں لانگ مارچ، جو پی ڈی ایم کے پچھلے سال نومبر میں قیام سے شروع ہوئی تحریک کا آخری مرحلہ تھا، ملتوی ہوگیا ہے۔ ایسا پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کی ہونے والی اپریل کے پہلے ہفتے میں ہونے والی میٹنگ کے پیش نظر کیا گیا ہے جس میں فیصلہ کیا جائیگا کہ پی ڈیم ایم کے لانگ مارچ کو اسمبلی سے استعفوں کے ساتھ نتھی کرنے کے استدلال کو مانا جائے یا نہیں۔ مولانا فرماتے ہیں کہ اب معاملہ عید تک ملتوی کردیا ہے ، قیادت اور کارکن تازہ دم ہونگے تو حکومت کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کا بھی مزا آئیگا۔ پیپلز پارٹی کا دیگر حزب اختلاف جماعتوں کے فیصلے کے خلاف جانا اور مولانا کی دہائیوں اور واسطوں کے باوجود ڈٹے رہنا ، پی ڈی ایم میں موجود چپقلش کا بھی پتہ دیتی ہے ۔ آخر کیوں نو پارٹیاں یہ سمجھتی ہیں کہ قومی اسمبلی سے استعفے دینے چاہییں جبکہ انہیں اس کے نتائج کا بھی پتہ ہے اور یہ بھی کہ پیپلز پارٹی قبل از انتخابات نہیں چاہتی۔ پیپلز پارٹی کی سوچ آج سے ایسی نہیں ہے بلکہ نواز شریف دور میں بھی ایسی ہی تھی جب پی ٹی آئی حکومت مخالف تحریک چلائے ہوئے تھی۔ اس وقت بھی پی پی کا موقف یہی تھا کہ اپنے ہزار اختلاف کے باوجود حکمران پارٹی کا ساتھ صرف اس لیے دے رہی تھی کہ کہیں جمہوریت ڈی ریل نہ ہوجائے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی پی ڈیم ایم میں گئی ہی کیوں تھی جبکہ یہ واضح تھا کہ اس کی روح رواں پی ایم ایل (این) اور جمعیت علما اسلام( ف) کا ایجنڈا صرف موجودہ حکومت کو رخصت کرنا ہی نہیں بلکہ قبل از وقت انتخابات بھی ہیں۔ اب اگر چال الٹی پڑگئی ہے تو یقیناً پارٹی کے لیے اس کے نتائج بھی نکلیں گے۔ اس کا واضح ثبوت وہ نفرت بھری میڈیا کمپین ہے جو پیپلز پارٹی کے خلاف اس وقت چلی ہوئی ہے۔اٹھارویں ترمیم اور اس کے نتیجے میں ملنے والی صوبائی خود مختاری کے تناظر میں پیپلز پارٹی نہ صرف موجودہ سیاسی نظام میں حصہ دار ہے۔وفاق اور صوبوں کے درمیان میں تعاون کے پس منظر میں یہ سمجھنا کہ تحریک پیپلز پارٹی تحریک انصاف کے خلاف وہی جذبات رکھتی ہے جو ن لیگ اور جمعیت کے ہیں تو یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہیں۔ جہاں یہ سوال اٹھا یا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا پھر کیوں حصہ بنی، وہیں پر یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ ن لیگ اور جمیعت نے اس پارٹی کو اپنے ساتھ کیوں ملایا ، نہ صرف اسے احتجاجی تحریک کا حصہ بنایا بلکہ اس کی قیادت سے وہ امیدیں بھی لگالیں جن کا پورا کرنا پیپلز پارٹی کے مفاد میں ہی نہیں ہے!