جس دن پیپلز پارٹی نے سندھ میں تیسری بار حکومت بنائی تھی، اس دن سے پیپلز پارٹی میں فارورڈ بلاک کی باتیں ہونا شروع ہوئیں۔ وہ باتیں اب تک چل رہی ہے۔ سندھی زبان میں کہاوت ہے کہ ’’کنوؤں اور لوگوں کے منہ کون بند کرسکتا ہے؟‘‘ اب اس کہاوت میں کچھ ترمیم کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ کنوؤں کے منہ تو کسی طور پر بند بھی ہوسکتے ہیں مگر لوگوں کے منہ بند کرنا ممکن نہیں۔ خاص طور اس صورت میں جب سوشل میڈیا ہر پل ایک نئے افواہ کا پرندہ اڑاتا ہے۔سوشل میڈیا کے بس میں ہو تو ہر پل حکومت تبدیل کرتا رہے۔ مگر جس طرح انگریزی میں کہتے ہیں کہ ’’جہاں دھواں ہوتا ہے وہاں آگ بھی ہوتی ہے‘‘ ویسے بھی ہر افواہ کے پیچھے صرف خواہش نہیں بلکہ خام صورت میں ایک خبر بھی ہوتی ہے۔ جب تک کوئی خبر پک کر پکی نہیں ہوتی تب تک اس کو منظر عام پر لانا پرنٹ میڈیا کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ پرنٹ میڈیا کو انتظار کرنا آتا ہے۔ سوشل میڈیا انتظار سے آشنا نہیں۔ اس لیے وہ ان خبروں کو بھی باہر لانے کی کوشش کرتا ہے جن خبروں کا درست وقت ابھی نہیں آیا۔ اس صورتحال میں کچھ بے صبرے لوگ تنگ آکر کہتے ہیں کہ ’’آخر اس خبر کا وقت کب آئے گا‘‘جو لوگ ’’فارورڈ بلاک‘‘ بننے اور حکومت سندھ کو ہٹانے کی خبر کے منتظر ہیں؛ ان کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ اب انہیں مزید انتظار کی اذیت سے گذرنا نہیں پڑے گا۔ اس وقت سابق وزیر اعظم اپنی بیٹی اور سابق صدر اپنی بہن کے ساتھ کرپشن کے مقدمات میں قید ہیں۔ ان سب کے دلوں میں بھی یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ پاک بھارت کشیدگی کی وجہ سے شاید ا نہیں تھوڑا سا ریلیف مل جائے۔ مگر اب انہیں بھی یہ یقین ہونے لگا ہے کہ سرحد پار سے ایسا کوئی سیلاب نہیں آ رہا جس کی وجہ سے جیلوں کے در کھول دیے جائیں۔ بحرانی دور میں مجرم بچ جاتے ہیں۔ مگر اس وقت پاکستان ایسے بحران میں مبتلا نہیں کہ مجرموں کی چاندی ہوجائے۔ یہ وقت جس میں ابھی تک بحران کی بو باقی ہے؛ یہ وقت بھی بہت جلد گذر جائے گا۔ اس کے بعد جو وقت آئے گا وہ بہتر ہوگا۔ ہم اس بہتری کی امید میں ہیں۔ یہ بہتری کا عمل کسی کے خواہش سے نہیں رکے گا۔ یہ وقت اپنی رفتار سے چلتا رہے گا۔ اس وقت کی راہ میں جو بحران رکاوٹ پیدا کرے گا وہ گذر جائے گا۔ ان گیارہ برسوں میں سندھ کے کسی بھی شعبے میں کوئی کام نہیں ہوا۔ نیب جس بھی شعبے کا فائل اٹھاتی ہے اس شعبے میں صرف کرپشن کے کالے دھبے نظر آتے ہیں۔ کیا یہ ظلم نہیں کہ جس شخص کے نام پر پیپلز پارٹی کو بدترین کارکردگی کے باوجود بھی ووٹ پڑیں اس شخص کے شہر یعنی ذوالفقار علی بھٹو کے شہر لاڑکانہ کی ترقی کے اربوں روپے بغیر کسی ڈکار کے ہضم کرلیے گئے۔ اس وقت لاڑکانہ کی ہر سڑک اکھڑی ہوئی ہے۔ ہر گلی ابلتے گٹر کے پانی سے بھری ہوئی ہے۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے آبائی شہر رتوڈیرو کے نالوں کابجٹ رتوڈیرو ہاؤس پر خرچ ہونے کی خبریں گردش کریں۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ یہ دلیل پیش کیا ہے کہ انہیں سندھ کے لوگوں نے ووٹ دیے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی بھی چند روز قبل یہ بیان دیا تھا کہ اگر ہماری حکومت ختم کی گئی تو ہم پہلے سے زیادہ منڈیٹ حاصل کرکے آجائیں گے۔ اگر سندھ میں تین ماہ کے بعد انتخابات کروائے جائیں تو یہ ممکن ہے کہ ووٹ ایک بار پھر پیپلز پارٹی کو ملیں مگر اصل سوال یہ ہے کہ سندھ پیپلز پارٹی کو ووٹ کیوں دیتا ہے؟ کیا یہ محبت ہے یا مجبوری؟ اگر سوال پر سوچا جائے اور بھرپور تحقیق کی جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوجائے گی کہ سندھ میں مصنوعی طور پر ایسے حالات بنائے گئے جن حالات میں دوسری جماعت اپنے پیر نہ جما سکے۔ آصف زرداری نے یہ سب کچھ جبر سے نہیں کیا مگر انہوں نے ہر سیاسی شخصیت کو پیپلز پارٹی میں شامل کرکے دوسری پارٹی کو پنپنے کا موقع تک نہیں دیا۔ کیا یہ جمہوریت ہے کہ سیاسی مارکیٹ میں مصنوعی طور پر اجارہ داری قائم کی جائے۔ کسی مخالف کو اپنا وجود قائم رکھنے کا حق نہ دیا جائے۔ اپنوں کے علاوہ کسی کو کسی کرسی پر بیٹھنے کے حق سے محروم رکھا جائے۔ کیا یہ جمہوریت ہے؟ جمہوریت اس نظام کو نہیں کہتے جس کو شطرنج کی بساط کی طرح بچھایا جائے۔ جمہوریت اس کو بھی نہیں کہتے جس کو جال بنا کر مخالف کو پھنسایا جائے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی اصلی قیادت نے کوئی ایسا مخالف پیدا نہیں ہونے دیا جسے سیاسی جال میں پھنسایا جائے۔ اس لیے اس جال میں سندھ کے محکوم اور مظلوم لوگ ہی پھنستے رہے ہیں اور وہ بھی گیارہ برس تک! سندھ کے لوگوں نے پیپلز پارٹی کا ایسا کون سا جرم کیا جس کی سزا انہیں آصف زرداری اور ان کی کرپٹ ٹیم کی صورت میں ملی ہے۔ سندھ کے لوگوں کو پیپلز پارٹی مائنس حکومت کا بھی تجربہ رہا ہے۔ اس لیے سندھ کے لوگ ایسی حکومت بھی نہیں چاہتے جو سکے کا دوسرا رخ ہو۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ سندھ کے لوگ گیارہ برس تک کرپشن کے کوڑے کھانے سے تنگ آچکے ہیں؛ وہ اب کم از کم سزا میں تبدیلی ضرور چاہتے ہیں۔اب سندھ کے سرکاری سیٹ اپ میں تبدیلی سزا میں تبدیلی ہوگی۔ سندھ کو اب یہ حق ملنا چاہئیے کہ وہ اپنے مقدر میں آئی ہوئی سزا میں تبدیلی حاصل کرے۔ اب اس تبدیلی کا وقت آگیا ہے۔ کیوں کہ جمہوریت کے نام پر آصف زرداری نے جو کنسنٹریشن کیمپ بنایا تھا اب اس پر آصف زرداری کا پہرہ نہیں۔ کیوں کہ آصف زرداری خود ہی پہریداروں کے نظر کرم کے محتاج ہیں۔پیپلز پارٹی کے باغی ارکان نے کافی وقت قبل اپنی مرضی کا فارورڈ بلاک بنانا چاہتے تھے مگر وہ سب آصف زرداری سے ڈرتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے باغی ارکان کا خوف اس وقت بھی ختم نہیں ہوا تھا جب آصف زرداری گرفتار ہوئے تھے۔ وہ جس طرح گرفتاری کی صورت میں بھی علاج کے بہانے عیاشی کر رہے تھے اوران کی ہمشیرہ اپنے بنگلے میںمقید تھیں؛ اس وقت وہ سوچ رہے تھے کہ شاید احتساب نورا کشتی ہے۔ مگر جب سے آصف زرداری اڈیالہ جیل کے مہمان ہوئے ہیں اور فریال تالپور عیدرات چیختی چلاتی سلاخوں کے پیچھے گئیں؛اب ان باغی ارکان کو یقین آگیا ہے کہ اب تبدیلی کا وقت آگیا ہے۔ اس وقت کراچی ڈفینس کے بنگلوں میں میٹنگز بلا خوف و خطر منعقد ہو رہی ہیں۔ اہم قلمدانوں کے سلسلے میں جوڑ توڑ جاری ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس سیٹ اپ میں وزیر اعلی کون بنے گا؟ سندھی میڈیا اس تبدیلی کا ساز بجانے لگا ہے۔ رات کے محفلوں میں سیاسی باغی سبز باغ دیکھ رہے ہیں۔دن کی اداس روشنی میں سندھ کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ غمگین لہجے میں گفتگو کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ تبدیلی آ رہی ہے۔ کوئی کہتا ہے ’’ہیں کیا فائدہ؟‘‘ دوسری آواز آتی ہے ’’کچھ اور نہیں تو کم از کم سزا میں تبدیلی تو آئے گی‘‘ تیسری آواز یہ موقف پیش کرتی ہے کہ ’’اگر اس بار تبدیلی آئی تو عمران خان سندھ کے لوگوں کو اقتداری بھوکوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے‘‘