ایک وقت ایسا تھا جب چانڈکا سے لیکر چترال تک صرف پیپلز پارٹی کے پرچم ہوا میں لہراتے نظر آتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب سیاسی جماعتیں جھنڈے لگوانے کے لیے مزدوروں کو معاوضہ نہیں دیا کرتی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب پیپلز پارٹی کے جیالے ببول کے درختوں پر پارٹی کے پرچم لگاتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب پیپلز پارٹی کے کارکنان ننگے پیروں کے ساتھ موٹر سائکلوں کے سائلنسروں پر کھڑے ہوکر نعرے لگاتے تھے۔ وہ نعرے سننے میں بہت اچھے لگتے تھے۔ ہر صوبے میں الگ الگ نعرے گونجتے تھے۔ سندھ میں ’’جیئے بھٹو ‘‘ کی دھن پر رقص ہوتا تھا مگر پنجاب میں ’’بھٹو دے نعرے وجن گے‘‘ جیسا لہو گرمانے والا نعرہ جس نے سنا ہوگا وہ اس نعرے پر ڈھول کی آواز کو فراموش نہیں کرسکتا۔ ویسے تو پیپلز پارٹی کا آفیشل نام پاکستان پیپلز پارٹی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ جماعت عملی طور پر سندھ تک محدود ہو چکی ہے۔ پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود کرنے کا سہرا آصف زرداری کے سر ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کا سندھ میں کوئی متبادل نہیں مگر تلخ سچائی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی بنیاد نہ اس کا کام ہے اور نہ اس کا نظریہ ہے۔ پیپلز پارٹی کی بنیاد آصف زرداری کی ذات پر رکھی ہوئی ہے۔ اس حقیقت کو پیپلز پارٹی کا ہر ورکر اور ہر وزیر اچھی طرح جانتا ہے۔ وہ ورکرز اور وزراء جو اپنی نجی محفلوں میں یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ ’’ہم تو خود چاہتے کہ زرداری اور ان کی ہمشیرہ جیل جائے تاکہ پارٹی ان کی جکڑ سے آزاد ہوجائے اور بلاول آزادی سے پارٹی کے معاملات چلائیں‘‘ یہ کہنے کے بعد وہ بھی سوچنے لگتے ہیں کہ کیا بلاول اس لائق ہے کہ وہ پارٹی کے معاملات کو چلا پائے؟ بلاول بہت ساری مشق کے بعد اب اردو میں صحافیوں سے بولنے کے لائق تو ہوگیا ہے مگر بولنے میں اور پارٹی معاملات چلانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بلاول کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ سندھ میں گرمی کی شدت کتنی ہوتی ہے؟ وہ نہیں جانتا کہ کاروکاری کی قبائلی رسم کس طرح کاروبار بنی ہوئی ہے؟ اس بات کا ڈر آصف زرداری کو بھی ہے کہ وہ اگر جیل گیا تو بلاول پیپلز پارٹی کے چالاک اور عیار کرداروں کے ہاتھوں میں پتلی بن کر رہ جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے چرب زبان لیڈر ٹی وی چینلوں پر پارٹی کے شہیدوں کا تذکرہ بڑے فخر سے کرتے ہیں مگر ان کو بھی معلوم ہے کہ صرف ماضی کے قصے سنا کر لوگوں میں مقبولیت میں اضافہ تو کیا مقبولیت کو قائم رکھنا بھی ممکن نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی میں اب مخلص افراد کی تعداد کم سے کم ہوتی جا رہی ہے ۔ وہ دلی طورپر چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی بنیاد آصف زرداری کے بجائے بلاول بھٹو زرداری پر رکھی جائے مگر بلاول سیاسی طور پر اس قدر مضبوط نہیں کہ وہ پارٹی کو سنبھال پائے۔ پیپلز پارٹی کے حلقوں میں یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری ذاتی طور پر کرپٹ نہیں ہے۔ جب کہ آصف زرداری نے پوری پارٹی کے مزاج کو کرپشن سے برسوں سے منسلک کر رکھا ہے۔ اب اس پارٹی کا کرپشن کے بغیر اپنا وجود قائم رکھنا ناممکنات کی حدود کو چھو رہا ہے۔ گذشتہ گیارہ برس سے اقتدار میں رہنے کے باعث سندھ میں پیپلز پارٹی ایک ایسی مچھلی کا روپ اختیار کر چکی ہے جو اقتدار کے پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ وہ بھی ایسا اقتدار جس میں ’’کھانے پینے‘‘ کی مکمل آزادی ہو۔ ایسا اقتدار جس میں شراب کو شہد میں تبدیل کرنے کی آزادی ہو۔ ایسا اقتدار جس میں نکاسی آب کے سکیموں کا پیسہ نوڈیرو ہاؤس کے روز مرہ کے اخراجات پر خرچ کرنے کی آزادی ہو۔ ایساا قتدار جس میں غیر قا نونی اثاثے بنانے پر کوئی روک ٹوک نہ ہو۔ ایسا اقتدار جس میں منی لانڈرنگ کی کمل آزادی ہو۔ ایسااقتدار جس میں ایک قیدی ماڈل کی حفاظت کے لیے سندھ پولیس کے کمانڈوز مقرر کیے جائیں۔ ایسا اقتدار جس میں تھر میں معصوم بچے ماؤں کے آغوش کے بدلے موت کی آغوش میں سوجائیں مگر ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے کرپٹ عملداروں سے کسی قسم کا سوال نہ پوچھا جائے۔ ایسا اقتدار جس میں ایڈز جیسے موذی مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد اگر سو سے بڑھ کر ہزاروں میں بھی داخل ہوجائے تب بھی کسی سے کچھ بھی نہ پوچھا جائے۔ ایسا اقتدار جس میں کرپشن کرنے والے کے خلاف اگر قانونی کارروائی ہو تو وہ صوبہ سندھ کے خلاف سازش قرار دی جائے۔ ان کو ایسے اقتدار کی لت لگ گئی ہے جس میں صرف مال کمانے اور اپنے اثاثے بڑھانے کی کھلی چھوٹ ہو۔ اگر کرپشن پر انگلی بھی اٹھائی جائے تو ’’سندھ کارڈ‘‘ کی بھرپور نمائش کی جائے۔ اس وقت سندھ میں حکومت کے اعلی اہلکار نیب کے نام سے بھی کانپ جاتے ہیں۔ اس لیے سندھ میں وقتی طور پر کرپشن میں کچھ کمی آئی ہے مگر قانون کی پکڑ اور دھکڑ کے باعث لوگوں کے عام کام بھی نہیں ہو رہے۔ بڑی کرسیوں پر براجمان افسران اپنے ذاتی حلقوں میں کھل کر کہتے ہیں کہ سرکاری تنخواہ تو ہر حال میں ملنی ہے۔ کام کریں یا نہ کریں۔ پھر صرف تنخواہ کے لیے کام کیوں کریں؟ یہ وہی بات تھی جس کا تذکرہ کرتے ہوئے آصف زرداری نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’نیب اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے‘‘ آصف زرداری کے بعد پیپلز پارٹی کا بکھرنا فطری بات کے طور پر دیکھا؛ سنا اور کہا جا رہا ہے۔ یہ آصف زرداری ہے جس کی مخصوص ٹیم اب احتساب کے شکنجے میں آ چکی ہے۔ ایک طرف شرجیل میمن جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے اور دوسری طرف اسپیکر سندھ اسمبلی سراج درانی احتساب کے گھیرے میں ہے۔ آصف زرداری جو پہلے گرفتاری سے بہت گھبرائے ہوئے تھے وہ اب انتظار کی اذیت سے پریشان ہوکر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ حالانکہ پیپلز پارٹی میں اوپر سے لیکر نیچے تک سب کو پتہ ہے کہ اب اس پارٹی میں وہ جذبہ اور قوت نہیں جو سرکار مخالف تحریک چلانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ آصف زرداری سوچ رہے ہیں کہ حکومت ان کے دباؤ میں آجائے گی اور وہ کبھی نہیں چاہے گی کہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتیں آپس میں متحد ہوں۔آصف زرداری کا خیال ہے کہ وہ اپنے پرانے ساتھیوں کے معرفت حکومت کے ساتھ قربت بڑھانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ کیا ایسا ہوگا؟ اس بارے میں سب کو معلوم ہے کہ عمران خان کے پاس سفید دامنی کے سوا اب تک کچھ بھی نہیں ہے۔اگر عمران خان نے اپنی حکومت کو دباؤ سے بچانے کے لیے زرداری پر ہاتھ ہلکا رکھا تو نہ صرف ان کی حکومت بلکہ ان کی سیاست بھی ناقابل نقصان کے بوجھ تلے آجائے گی۔ عمران خان کے بارے میں پیپلز پارٹی والے یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ اگر انہیں حد سے زیادہ تنگ کیا گیا تو وہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو گرا کر تحریک انصاف؛ ایم کیو ایم؛ جی ڈی اے اور پیپلز پارٹی کے باغی ارکان کو ملا کر آصف زرداری سے وہ سندھ حکومت بھی چھین لینگے جو سیاست کے سمندر میں ان کاآخری سہارا ہے۔ اگر آصف زرداری اپنی سرکاری کشتی کو ڈبونے کے لیے راضی ہیں تو اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے سے کوئی کسی کو کس طرح روک سکتا ہے۔ اصف زرداری کے لیے یہ بھی مشہور ہے کہ وہ بہت بڑی دھمکی دیکر بہت بڑی معافی مانگنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اس لیے عمران خان کو آصف زرداری سے کوئی خوف نہیں البتہ پوری پیپلز پارٹی کو اس خوف نے گھیرے میں لے رکھا ہے کہ اگر آصف زرداری گرفتار ہوگئے تو بلاول بھٹو اس پارٹی کو متحد رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے جس پارٹی کی بنیاد زرداری کی ذات پر ہے۔ ان کی وہ ذات جس میں کرپشن کرنے اور کرپشن کا پیسہ چھپانے کے بڑے گر موجود ہیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کو صرف کرپشن کی لالچ سے جوڑ کر نہیں رکھا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی پر اپنے خوف کا پہرہ بھی بٹھا دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے حلقوں میں یہ بات بار بار دہرائی جاتی ہے کہ آصف زرداری کسی کو معاف نہیں کرتے۔ وہ آصف زرداری جس کا خواب تھا کہ وہ ایم کیو ایم جیسی پارٹی بنائے۔ اب جب الطاف حسین کی بنیاد چھن جانے کے بعد ایم کیو ایم ٹکڑوں میں تبدیل ہوگئی ہے تب پیپلز کو ایم کیوایم جیسے انجام سے آصف زرداری کب تک بچا پائیں گے؟