اس بار لاڑکانہ کی راہوں اور میڈیا کی معرفت سارے ملک کی نگاہوں نے دیکھا کہ پیپلز پارٹی نے4 اپریل کی تیاری 27 دسمبر سے بھی بڑھ چڑھ کر کی تھی۔ جس کا سبب صرف یہ تھا کہ آصف علی زرداری بہت بڑا پاور شو کرکے گرفتاری سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حالانکہ آصف زرداری اچھی طرح جانتے ہیں کہ احتساب کے شکنجے سے اب ان کا بچنا محال ہے۔ اگر وہ نہ سمجھتے تو لاڑکانہ سے لوٹ کر اپنے حلقے میں یہ نہ کہتے کہ ’’اگر میں گرفتار کیا جاؤں تو میرے بچوں کا خیال رکھنا‘‘ اس کے ساتھ ساتھ آصف زرداری نے یہ واضع ہدایت بھی کی کہ اگر مجھے نااہل قرار دیا جائے تو میری نواب شاہ والی سیٹ پر میری چھوٹی بیٹی آصفہ کو کامیاب کروایا جائے‘‘۔ ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقعے پر آصف زرداری کوشش کے باوجود جذباتی تقریر نہ کرپائے۔آصف زرداری بہت کوشش کرتے ہیں وہ عدالت میں بھی مردآہن کی طرح نظر آئیں مگر جب وہ اپنے گرد احتساب کا گھیرا تنگ ہوتا دیکھ رہے ہیں تب ان کو یقین ہوگیا ہے کہ ان کو حاصل لمبی رسی اب ختم ہونے والی ہے۔ مگر اب بھی پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اپنے بااعتماد حلقوں میں کھل کر کہتے ہیں کہ ’’جب محترمہ بینظیر بھٹو اپنے بیٹے کی عمر کی تھی وہ کسی ٹیم کے اشاروں پر چلنے کے بجائے اپنی ٹیم بنا چکی تھی اور وہ ٹیم ان کی جنبش ابرو کو دیکھا کرتی تھی‘‘پیپلز پارٹی کے مستقبل کے بارے میں پریشان وہ سینئر سیاسی رہنما اپنے ذاتی دوستوں سے اس بات کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ ’’لیڈر باہر سے نہیں بنتا۔ لیڈر اندر سے بنتا ہے۔ وقت ثابت کر رہا ہے کہ زرداری کے خون میں سیاست کا وہ جوش نہیں جو بھٹو خاندان میںہے‘‘یہ ہی سبب ہے کہ بڑی کوشش اور کاوش سے تیار بلاول بھٹو زرداری کے ہوتے ہوئے بھی عام طور پر سارا ملک اور خاص طور پر سندھ فاطمہ بھٹو کا منتظر نظر آتا ہے۔ فاطمہ بھٹو ماضی میں ہمیشہ یہ موقف اختیار کرتی آئی ہیں کہ ان کا عملی سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں مگر جب اس بار انہوں نے لاہور لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کی اور ان سے سیاست کے بارے میں سوال پوچھا گیا تب اس نے بڑی دانائی سے جواب دیا کہ ’’ہر چیز سیاست ہے‘‘فاطمہ بھٹو نے اپنی پھوپھی صنم بھٹو کی طرح کبھی نہیں کہا کہ ان کی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انہوں نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ ’’ان کی سیاست علمی اور ادبی ہے‘‘ مگر اب حالات ایک نیا رخ لیتے نظر آ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ہوتے ہوئے عام طور پر پاکستان اور خاص طور پر سندھ میں جو سیاسی خلا تیزی سے پیدا ہو رہا ہے اس میں فاطمہ بھٹو کا نام نعرے کی صورت میں گونج رہا ہے۔یہ نعرہ اس بار بھٹو کی برسی کے موقعے پر اس وقت بھی گونج اٹھا جب پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کی چیئرپرسن غنوی بھٹو نے 4 اپریل کی صبح اپنی پارٹی کے اسٹیج سے تقریر کرتے ہوئے پہلی بار بلاول کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ذوالفقار علی بھٹو کی بہو اور میر مرتضی بھٹو کی بیوہ نے گذشتہ بائیس برسوں کے دوراں بلاول کے بارے میں کوئی بات کرنے سے گریز کیا ہے۔ مگر اس بار انہوں نے اپنی پارٹی کے جذباتی پنڈال سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا : ’’مجھے ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ آج میں بلاول کے بارے میں بات کروں!میں بلاول سے کہنا چاہتی ہوں کہ:’’بلاول تمہیں برا تو نہیں لگے گا اگر میں تمہیں بلاول بینظیر کے نام سے مخاطب کروں؟ بھٹو کا کیوں؟ کیا تم عوام کو یہ بات بتانے میں شرم محسوس کر رہے ہو کہ تم بینظیر کے بیٹے ہو۔تم عورتوں کی عزت کی بات کرتے ہو تو فخر سے کہو کہ تم بینظیر کے بیٹے ہو۔اگر تم ماڈرن ؛ اصول پرست اور حقوق نسواں کے علمبردار ہو تو کہو کہ تم کو’’ بلاول بینظیر ‘‘ بلایا جائے۔کیا تم کومعلوم نہیں کہ قیامت کے روز تمہیں ماں کے نام سے بلایا جائے گا؟بلاول جنہوں نے تمہیں ’’بھٹو‘‘ کا نام دیا اور انہوں نے تمہیں تمہارے نانا کی شادی کی انگوٹھی بھی دی مگر قدرت تم پر مہربان نہیں ہوئی۔قدرت نے تمہارا چہرہ نانا ذوالفقار علی بھٹو جیسا نہیں بلکہ دادا حاکم علی زرداری جیسا بنایا۔تم کتنی بھی کوشش کرو مگر تم بھٹو نہیں بن سکتے۔ نہ تمہاری صورت میں بھٹو ہے اور نہ تمہاری سیرت میں بھٹو ہے۔ بلاول بینظیر! اب تم بڑے ہوگئے ہو۔اب تم نے تیس برس کا سفر پورا کیا ہے۔ کیا میں اب سوچ سکتی ہوں کہ تم آزاد خودمختار اور آزاد ہو؟ تمہاری عمر کے نوجوانوں نے تو خودمختاری اور آزادی کی جنگ لڑی ہے۔مگر مجھے شک ہے کہ تم کبھی آزاد اور خودمختار ہوسکتے ہو۔ تم آزادی کس طرح حاصل کر سکتے ہو اگر تمہاری جیب میں خرچی تمہارے باپ کی ہے۔ اتنی خرچی جتنی خرچی سے نوڈیرو کے سارے اسکول چل سکتے ہیں۔ اتنی خرچی ؛ جتنی خرچی سے تمہارے حلقے کے سارے مریض اپنی آنکھوں اور چمڑی کے مریض اپنا علاج کرواسکتے ہیں۔بلاول بینظیر ممکن ہے کہ میں غلط ہوں۔ ممکن ہے کہ تم اپنی آمدنی خود کما رہے ہو۔ مگر کیسے؟کہاں سے؟ ان زمینوں سے جو تمہارے باپ نے نواب شاہ کے عوام سے چھینیں؟یا تمہارے باپ نے تمہاری خالہ سے ساز باز کرکے اصل وارثوں سے چھینیں؟اگر ان ساری زمینوں کا پیسہ بھی تم کو مل جائے تب بھی تمہاراوالد باپ اور تم اس عیاشی کی زندگی بسر نہیں کرسکتے جو تم بچپن سے بسر کرتے آئے ہو۔دبئی کے محلاتوں اور اس کے اردگرد پھیلے ہوئے چمچوں کا خرچہ زمینوں کی آمدنی سے پورا ہونا ممکن نہیں تھا اور نہ ہے۔‘‘جس وقت پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کی چیئرپرسن یہ تقریر کر رہی تھی اس وقت پورا پنڈال ان نعروں سے گونجنے لگا ’’زرداری کا خاتمہ۔۔۔فاطمہ فاطمہ‘‘یہ نعرے تو پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کے جلسوں میں ہمیشہ لگتے رہے ہیں مگر اس بار غنوی بھٹو نے اسٹیج پر اپنی تقریر کے دوراں یہ نعرے لگوائے ’’زرداری کا خاتمہ ۔۔۔فاطمہ فاطمہ‘‘ اس وقت جلسے کا ماحول غیر معمولی طور پر جذباتی ہوگیا۔ شہید بھٹو پارٹی کے ورکرز کو پہلی بار محسوس ہوا کہ اب فاطمہ بھٹو عملی سیاست میں آنے کا فیصلہ کر چکی ہیں۔ مرتضی بھٹو کی پارٹی کے کارکنان کے دلوں میں تو یہ امید برسوں سے چراغ کے مانند جل رہی ہے کہ بھٹو فیملی کی اصل وارث فاطمہ بھٹو اور ذوالفقار جونئیر عملی طور پر میدان سیاست میں آئیں گے مگر اس بار گڑھی خدابخش کی دھرتی پر غنوی بھٹو کی تقریر اور مرتضی بھٹو کے کارکنان کے نعروں کا ردعمل پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی آیا۔ اس تقریر اور ان نعروں کے بعد بلاول بھٹو کے ترجمان جمیل سومرو نے اپنے ٹوئٹر پر یہ الفاظ لکھے ’’فاطمہ بھٹو! اپنی شامی ماں کا منہ بند کرواؤ۔ تم لوگ ستر کلفٹن اور المرتضی کے مکین تو ہوسکتے ہو مگر شہید بھٹو کی سیاست کے امین نہیں ہوسکتے‘‘ جمیل سومرو نے تو پارٹی قیادت کے حکم پر اپنا وہ ٹوئیٹ ڈلیٹ کردیا مگر اس ٹوئیٹ کی اسکرین شاٹ سوشل میڈیا پر اب تک شیئر ہو رہی ہے اور پورے سندھ میں پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کے کارکنان سراپا احتجاج ہیں۔ میڈیا میں اب یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ’’فاطمہ بھٹو نے عملی سیاست میں آنے کا فیصلہ کرلیا ہے‘‘ ان خبروں کے باعث پیپلز پارٹی کے حلقوںمیں پریشانی کی لہر ابھر آئی ہے۔ اس صورتحال نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سیاست بھٹو خاندان کے بغیر نامکمل ہے اور سیاست میں اب ’’فاطمہ فیکٹر‘‘ کو کوئی قوت نظرانداز نہیں کرسکتی۔