قوموں کی زندگی میں نشیب و فراز کی کوئی انہونی بات نہیں ۔ زندہ قومیں اپنے مسائل کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر ان کے حل کے لئے جدوجہد کرتی اور منزل کی جانب بڑھتی ہیں۔ پاکستان اپنی نوعیت کا واحد ملک ہے جس کو اپنے قیام کے بعد سے مسلسل بحرانوں کا سامنا ہے۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور افسر شاہی نے ہمیشہ مسائل کو دیکھنے اور سمجھنے کے باوجود ان کے حل کے بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 2040ء تک صرف پانی کے شدید بحران کا ہی سامنا نہیں ہو گا بلکہ پاکستانی شدید غذائی قلت کا بھی سامنا کر رہے ہوں گے۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ پاکستان میں یہ بحران کسی قدرتی آفت یا ناگہانی وجہ سے نہیں بلکہ 73برسوں سے ہمارے حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت سے بڑھ رہا ہے جنہوں نے اپنے وقتی اور ذاتی فائدے کے لئے قوم کو بھوک اور افلاس میں دھکیل دیا ہے اس سے بڑھ کر بدنصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اقوام متحدہ شدید غذائی قلت کی پیش گوئی اس ملک کے بارے میں کر رہا جو ایک زرعی ملک تھا۔ پاکستان رقبے کے لحاظ سے دنیا کا 33واں بڑا ملک ہے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی 77فیصد آبادی دیہی علاقوں اور 87 فیصد زرعی شعبہ اور اس سے منسلک انڈسٹری سے وابستہ تھی۔ پاکستان میں لگ بھگ 5000 انڈسٹریل یونٹس ہیں جن میں سے ساٹھ فیصد ایگروبیسڈ ہیں ۔ اعداوشمار کے مطابق پاکستان میں 28 ملین ہیکٹر رقبہ قابل کاشت ہے جس میں سے 4 ملین ہیکٹر رقبہ ویسے تو قابل کاشت ہے مگر اس پر فصل کاشت ہی نہیں ہوتی اس طرح 7ملین ہیکٹر رقبہ پر ایک سال فصل کاشت ہوتی ہے اور دوسرے سال نہیں اس کے باوجود بھی پاکستان اپنی غذائی ضروریات کسی حد تک پورا کر رہا تھا۔ پاکستان کا زیادہ تر قابل کاشت رقبہ وسطی پنجاب جنوبی پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں ہے۔ مگر قیام پاکستان کے بعد سے 73 برس گزر جانے کے باوجود حکومت کی مسلسل غفلت اور منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے ملک میں بے ہنگم بڑھتے شہر زرعی اور قابل کاشت رقبے کو تیزی سے نگل رہے ہیں اور یہ سلسلہ قیام پاکستان سے ہی شروع ہو چکا تھا جس کی مثال ایک کراچی کی آبادی ہے۔ جس میں 1941ء سے 1951ء کے دوران 76فیصد اضافہ ہوا ۔ اس عرصہ میں شہر فیصل آباد کی آبادی میں 156فیصد، حیدر آباد کی آبادی میں 80 فیصد اضافہ ہوا۔قیام پاکستان کے بعد شہروں میں سہولیات کے نمایاں فرق سے دیہی علاقوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی کا سلسلہ مزید تیز ہوتا گیا جس کا اندازہ پانچویں اور چھٹی خانہ و مردم شماری سے ہوتا ہے۔1998ء میں ملک کی 32.5فیصد آبادی شہروں میں مقیم تھی جبکہ 2017ء میں یہ تناسب بڑھ کر 36.4فیصد ہو گیا۔1998ء اور 2017ء کے دوران خانہ و مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی شہری آبادی میں 3کروڑ 25لاکھ 48ہزار نفوس کا اضافہ ہوا۔ 53 فیصد لوگ ملک کے 10بڑے شہروں لاہور، کراچی، فیصل آباد ،راولپنڈی ،گوجرانوالہ، ملتان، پشاور ،حیدر آباد اور اسلام آباد میں منتقل ہوئے۔ پنجاب حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 1995ء میں لاہور شہر کا رقبہ 445 مربع کلو میٹر تھا جو 2015ء میں 665مربع کلو میٹر تک پھیل گیا۔ اسی طرح راولپنڈی اسلام آباد کا 2015ء میں 494 مربع کلو میٹر شہری آبادی میں آ چکا تھا۔ فیصل آباد اس عرصہ میں 99مربع کلو میٹر زرعی رقبہ شہری آبادی میں ضم کر لیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 2025ء تک لاہور 1320مربع کلو میٹر تک وسیع ہو جائے گا۔ دوسرے نمبر پر راولپنڈی اسلام آباد تیسرے پر گوجرانوالہ کے زرعی رقبے پر ہائوسنگ سوسائٹیاں ہوں گی۔ اگر دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی اور زرعی رقبہ پر ہائوسنگ سوسائٹیوں کی تعمیر کا یہ سلسلہ چلتا رہا تو 2025ء تک پنجاب کے 50شہروں کا مجموعی رقبہ 4626مربع کلو میٹر تک پھیل جائے گا اور 2040ء تک صرف پنجاب کے شہروں کا رقبہ بڑھ کر 11736مربع کلو میٹر تک پھیل جائے گا۔ یعنی 10برسوں میں 79فیصد اور اگلے 15سال میں 154فیصد زرعی رقبہ شہر نگل جائیں گے۔ وزارت ماحولیات کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 40سال کے دوران لاہور میں 114630ہیکٹر قابل کاشت زمین کو شہری آبادی میں تبدیل کیا گیا ہے۔ ضلع لاہور کا زیر کاشت رقبہ جس پر فصل اور پھل دونوں کاشت کئے جاتے ہیں۔ 2008ء میں ایک لاکھ83 ہزار ہیکٹر تھاجو 2015ء تک کم ہوکر ایک لاکھ 63 ہزار ہیکٹر ہو گیا۔ یعنی7 سال کے دوران لاہور ڈسٹرکٹ کے زیر کاشت رقبہ میں 10.9 فیصد کمی واقع ہوئی۔ جس کی بڑی وجہ ان زمینوں کے استعمال میں تبدیلی ہے جس کا سب سے بڑا محرک رہائشی مقاصد کے لئے زمینوں کا تصرف ہے۔ یوں ہمارے بڑے اور درمیانے شہر پھیلتے پھیلتے جا رہے ہیں دیہی علاقوں اور زرخیز زمینوں کو جو شہر کے اندر آچکی ہیں یا ابھی شہر سے ملحقہ ہیں کوہضم کر رہے ہیں۔ زرعی زمینوں پر رہائشی کالونیاں بنانے کا مسئلہ صرف لاہور اسلام آباد گوجرانوالہ ہی تک محدود نہیں 2010ء کے بعد یہ رجحان وسطی پنجاب کے بعد جنوبی پنجاب میں بھی بڑھ رہا ہے ملتان بہاولپور راجن پور بہاولنگر میں قابل کاشت زمین پر شہر پھیل رہے ہیں۔ دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان سہولیات اور روزگار کے مواقع کی بڑھتی ہوئی تفریق، روزگار کے دیگر ذرائع کا محدود ہونا اور ان جیسے کئی ایک دیگر عوامل دیہی لوگوں کو زراعت کا پیشہ ترک کرکے شہروں کی جانب نقل مکانی کرنے پر مجبور کر رہے ہیں ۔اگر یہ سلسلہ اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو وہ دن دور نہیں جبکہ پاکستان کے قابل کاشت رقبے پر شہر آباد ہوں گے۔اگر حکومت قابل کاشت زرعی رقبے کو بچانے کے لئے اقدامات نہیں کرتی تو پاکستان میں زراعت کے خاتمے کے ساتھ 5000 ایگرو بیسڈ انڈسٹریل یونٹس بھی بند ہونے کا اندیشہ ہے۔ جس سے غربت اور بھوک ملک میں لاقانونیت کو جنم دے گی تاریخ گواہ ہے کہ ممالک بیرونی حملہ آوروں سے زیادہ اندرونی خلفشار اور انارکی سے تباہ ہوتے ہیں۔