یہ گیارہ ماہ پہلے بیس دسمبر کا سرد دن تھاجب بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نخوت بھرے انداز میں بھارتی نژاد امریکی سیاست دان اور کانگریس کی خاتون رکن پرمیلا جے پال سے ملنے سے انکار کر دیا اور اس انکار کی وجہ سے امریکی وفد سے ہونے والی ملاقات ہی کینسل کردی ،جے شنکر کے اس اقدام کو نئی دہلی کے انتہا پسندوں نے خوب سراہا اور اانہیں سچا دیش بھگت قرار دیابے جی پی سرکار نے بھی اسے خوب کیش کرایا کہ ’’چوکیدار‘‘ کے دم سے بھارتی سرکار میں اتنا دم آچکا ہے کہ اب وہ سپرپاور کی آنکھوں میں بھی آنکھیں ڈال رہا ہے ہمارا وزیر اعظم بے تکلفی سے قہقہہ لگاتے ہوئے دنیا کے طاقتور ترین شخص ڈونلڈٹرمپ کے لنگوٹیئے دوستوں کی طرح ہاتھ پر ہاتھ مارتا ہے اور ہمارادیش بھگت وزیر خارجہ بھارت کی کشمیر پالیسی ر ناک بھوں چڑھانے والوں سے ملنے سے صاف انکار کردیتا ہے۔۔۔ یہ سب بہت عجیب تھاامریکی کانگریس کی پچپن سالہ بھارتی نژاد رکن پرمیلا جے پال بھی اس غیر سفارتی حرکت پر حیران رہ گئی تھیں بے شک ان کا اور جے شنکر کی جلد کا رنگ اور آبائی وطن ایک تھا دونوں ہندی بول اور سمجھ سکتے ہیں لتا منگیشکر کی مدھر آواز دونوں ہی کو بھاتی ہے لیکن اس سب کے باوجود وہ امریکی شہری اورسیاست دان تھیں ،جے شنکرکو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ جے شنکر واشنگٹن میں ’’ٹو پلس ٹو فورم ‘‘ میں شرکت کے لئے موجود تھے ان کی ایک امریکی وفد سے ملاقات طے تھی جس میں شرمیلا جے پال بھی شامل تھیں ،بھارتی کانگریس کی یہ خاتون رکن مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھرپور انداز میں آواز اٹھا تی رہی تھیں یہ وہی پرمیلا جے پال تھیں جنہوں نے مودی سرکار کی آئین گردی اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر تیرہ اراکین کانگریس کے ساتھ مل کر مودی کو خط لکھا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کی جائے،یہ کانگریس میں قرارداد بھی جمع کرواچکی تھیں اس خط نے دہلی کو مرچیں چبانے پر مجبور کردیا تھا وزیر خارجہ جے شنکر کو جب امریکی وفد میں شرمیلاجے پال کا نام دیکھا تو انہوں نے اس خاتون کا سامنا کرنے سے ہی انکار کردیا اور سفارتی آداب کے برخلاف میٹنگ کینسل کردی۔ بھارتی نیوز ایجنسی اے این آئی نے اس واقعے کو رپورٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ’’ مجھے ان سے ملاقات میں کوئی دلچپسی نہیں ہے مجھے نہیں لگتا کہ ان کی رپورٹ میں جموں کشمیر کی صورت حال کو مناسب طریقے سے سمجھا گیا ہے یا اس میں بھارتی سرکار کے اقدامات درست طریقے سے بتایا گیا مجھے صرف ایسے لوگوں سے ملنے میں دلچسپی ہے جو معروضی انداز میں سوچتے اور کھلے ذہن سے بات چیت کرتے ہیں میں ایسے لوگوں سے بات چیت نہیں کرنا چاہتا جنہوں نے پہلے ہی اپنا ذہن بنا رکھا ہے ‘‘۔پرمیلا جے پال نے اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا کہ اس فیصلے سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ بھارتی حکومت کسی بھی طرح اختلاف رائے سننے کی متحمل نہیں ،جے شنکر کے اس انکار پر بے جے پی والوں نے خوب بھنگڑے ڈالے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اعلان کے بعد مودی سرکار ویسے ہی آستینیں چڑھائے ہوئے تھی ٹرمپ سے بے تکلفانہ دوستانہ مراسم کے زعم الگ تھا شائد اسی لئے جے شنکرنے وہ سب کچھ کیا جس پر انہیں اب پچھتاوا ہو رہا ہوگا ،یہ سب اس وقت بھارت کے لئے آسان تھا’’ نئی دہلی‘‘ نے لاابالی طبیعت کے کھلنڈرے ٹرمپ سے کافی پینگیں بڑھائی ہوئی تھیں ،ٹرمپ نے نئی دہلی کے لئے تاریخی دورے کی تاریخ بھی دے دی تھی چند ماہ بعد ٹرمپ نے بھارت میں ہونا تھا ،گجرات میں اسکے تاریخی استقبال کے لئے سوچ بچار شروع کر دی گئی تھی اور پھر ایسا ہی ہواٹرمپ کے دورے میںنریندر مودی ان کے سامنے بچھ گئے ،کہا کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات ایک شاندار دور میں داخل ہورہے ہیں لیکن یہ شاندار دور بمشکل ایک سال پر محیط رہا ،ٹرمپ کے مخالف بائیڈن نے انہیں شکست دے کر ان کی دوسری بار وائٹ ہاؤس میں قیام کی خواہش حسرت میں بدل دی ساتھ ہی نئی دہلی کے نیتاؤں کی پیشانیوں کو بھی شکن آلود کردیا اس اضطراب کا سبب امریکی انتخابات میں بھارت کی غیر محتاط روش تھی جو آگے چل کر نئی دہلی کے لئے مشکلات پیدا کرسکتا ہے ۔ بھارت نے تمام تر سفارتی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر امریکی انتخابات میں اپنا سارا وزن ڈونلڈ ٹرمپ کے پلڑے میں ڈال دیا تھا،بھارتیہ جنتا پارٹی نے ان امریکی انتخابات میں غیر معمولی سرگرمی دکھائی تھی،گزشتہ برس ستمبر میں ہاؤڈی ٹرمپ ریلی میں خود نریندر مودی نے انڈین امریکن کمیونٹی سے کہا تھا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیں،ستمبر میں امریکہ میں رجسٹرڈ ہونے والی ’’اوورسیز فرینڈز آف بی جے پی‘‘کو باقاعدہ ہدائت کی گئی کہ وہ ڈونلد ٹرمپ کو جتوانے میں کردار ادا کریں یہ سارے اقدامات بتاتے ہیں کہ نئی دہلی کو ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کا سو فیصد یقین تھا اور اسی یقین نے اسے ریس کے اس گھوڑے پر سب کچھ لگانے کا اعتماد دیا لیکن نتیجہ برعکس نکلا اب بھارت کی بے جی پی سرکار کے لئے اس ہزیمت کے ساتھ بائیڈن سرکار سے تعلقات کا آغاز کرنا ہوگا اورشائد اسکے لئے بہت کچھ پہلے کی طرح آسان نہ ہو،بھارتی وزیر خارجہ کے ہاتھوں دھتکاری جانے والی پرمیلا جے پال اب اچانک اہمیت اختیار کرگئی ہیں،پرمیلا جے پال سے ملاقات پر انکار کو آڑے ہاتھوں لینی والی انکی دوست کملا ہیرس اس وقت نائب صدر ہیں یہ وہی کملا ہیرس ہیں جنہوں نے بھارتی وزیر خارجہ سے کہا تھا کہ وہ ہمیںیہ نہ بتائیں کہ انہیں کس سے ملنا اور نہیں ملناچاہئے ۔۔۔ یہ دونوں بھارتی نژاد خواتین اس وقت مودی سرکار کے لئے درد سرکا سبب بن سکتی ہیں، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترصورتحال ،انٹر نیٹ کی بندش اور ذزرائع ابلاغ پر سنسرپر کڑی تنقید کرنے والی ان خواتین کی پوزیشن محض ناقد کی نہیں ہے اور یہی بات مودی سرکار کے لئے پریشان کن ہے لیکن اب پچھتائے کیا ہوت ۔۔۔وہ امریکی انتخابات میں کریز سے باہر نکل کر کھیلے تھے گیند مس ہوکر وکٹ کے ساتھ کھڑے وکٹ کیپر کے ہاتھوں میں ہے اور وہ کریز سے باہر۔۔۔ایسے میں وہ صرف گردن موڑ کر بے بسی سے پیچھے دیکھنے کے اور کیا کرسکتے ہیں !