سچ پوچھیں تو وہ منظر مجھے بھلا لگا تھامجھے ان میں اپنا آپ دکھائی دیا،جوش سے تمتماتے چہرے،سب کچھ بدل دینے کا عزم لئے روشن آنکھیں اوربلند لہجہ ۔۔۔ترشی ہوئی داڑھی والا لڑکا جب دف نما طبوقے کی تھاپ اور ایک ردھم سے بجنے والی تالیوں میں آسمان کی جانب انگشت شہادت بلند کرکے لال لال لہرانے کی بات کرتا تواچھا لگتا،ستواں ناک اور گندمی رنگ والی لڑکی نے بھی اس نوجوان کاخوب ساتھ دیا ،اسکا نعرہء مستانہ بلندکرنے کا انداز بھی زبردست تھا اورخاص کر جب جھومتے جھامتے اسکے پاس نعروں کا کوٹہ ختم ہوجاتا اور وہ ساتھ کھڑے ساتھی کے پہلو میں کہنی سے ٹہوکا دے کر میدان سنبھالنے کا اشارہ دے کر پیچھے ہوجاتی اور اسکا ساتھی اسی ٹیون میں ردھم لے کر چلتا تو سماں بندھ جاتا۔۔۔میںنے یہ سب دلچسپی سے دیکھااور خو دکو جامعہ کراچی کی آرٹس لابی میں وہاں محسوس کیا جہاں اسلامی جمعیت طلباء والوں نے سیمنٹ کی پختہ راہداری پر امریکی پرچم پینٹ کر رکھا تھا،مجھے امریکہ کے ان ستاروں کو روند کر جانے میں عجب مزا ملتااور انقلابی طبیعت کو یک گونہ سکون ملتامیری کوشش ہوتی کہ میں کم از کم ایک دو بار تو اس راستے سے لازمی گزروںاور یہ خواہش اک اکیلے میرے دل میں کاشت نہ ہوتی تھی۔ اسی کی دہائی سے پہلے پاکستان کے تعلیمی اداروں ،کالجوں ،یونیورسٹیوں میں دائیں اور بائیں باز و کی تفریق بڑی واضح ہوا کرتی تھی ،اسی کی دہائی سے کلینڈر کے پرانے اوراق بالترتیب پلٹتے جائیں توتعلیمی اداروں میں بائیں بازو والے بھاری پڑتے دکھائی دیںگے،یہ وہ دور تھا جب سرخ انقلاب سے نصف دنیا سرخی مائل ہوچکی تھی،ماسکو سے لے کر بخارسٹ تک اور کیوبا سے کابل تک سرخ کھانسی سے کوئی نہیں بچا تھاجسے کھانسی نہیں بھی آتی تھی وہ بھی بطور فیشن کھاؤں کھاؤں کھانستا ملتاتھااشتراکیت کی ہوا ہی ایسی چل رہی تھی اپنے وطن میں بھی رسم و رواج اور مذہب بیزاری کے فیشن کا دور دورہ تھا،بطور خاص ادب اور زرائع ابلاغ پر اشتراکیت پسندکا قبضہ تھا،اردو ادب پر ترقی پسند انقلابی شاعر اور ادیب سواری کر رہے تھے ایسے میں درسگاہیں ان کے اثر سے کیسے محفوظ رہ سکتی تھیں سو ایسا ہی ہواسرخ انقلابیوں اور چی گویرا کے فضائل پر لیکچر دینے والوں نے کچے ذہن مسخر کرکے ان کی آنکھوں میںسرخ انقلاب کے خواب بھر دیئے ،اس وقت نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن بائیں بازو کے طلباء کی چھتری ہوا کرتی تھیں جس کے سائے میں جوشیلے انقلابی گردن کی نسیں پھلا کر یہاں سے نعرہ لگاتے سرخ ہے سرخ ہے ۔۔۔اور جواب میں سینکڑوں انقلابی یک آواز ہو کر جواب دیتے ’’ایشیا سرخ ہے‘‘۔اک عرصے تک اس نعرے کوبھرپورقوت سے چیلنج نہیں کیا جاسکا لیکن پھراس کا جواب اسی شدت سے آنے لگا،مولانا ابولااعلی ٰ مودودی کی فکر درسگاہوں میں بولنے لگی جامعہ کراچی اور جامعہ پنجاب میں ایک طرف سے نعرہ لگتا سرخ ہے سرخ ہے ایشیا سرخ ہے تو دوسری جانب سے اسلامی جمعیت طلباء کے کارکن اس سے زیادہ قوت سے جواب دیتے’’ ایشیا سبز ہے ‘‘وقت اپنی رفتار سے چلتا رہا ،اشتراکیت جتنا عروج پاسکتی تھی پا کرسمٹنے لگی ،وہ سرخ پھریرا جو نصف دنیا پر لہراتا تھا لپٹتا چلا گیا،کمیونزم کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے مشرقی جرمنی اور سرمایہ دارآنہ نظام کے مہرے مغربی جرمنی کے درمیان کھینچی گئی دیوار برلن 9 نومبر 1989ء کو ٹکڑے ٹکرے ہوگئی کمیونزم وینٹی لیٹر پر آگیا اور دو برس بعد ہی 26دسمبر1991 کودم توڑ گیاسوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سرخ اور سبز کی کشمکش تقریبا ختم ہوگئی ،سرخوں نے سرمایہ دارآنہ نظام سے عہد وفا باندھ لئے اور ماسکو کی جگہ واشنگٹن کو اپنا قبلہ ٹھہرالیا لیکن اسکے باجود سرخوں کے کچھ مقتدی ماسکو ہی کی جانب صفیں باندھ کر نماز پڑھنے پر مصر رہے انہوں نے کوچۂ یار چھٹا ہے نہ چھٹے گا۔ حسرت کے مصداق اپنی جگہ چھوڑنے سے انکار کردیاتھاالبتہ انکی سرخ قبا کا رنگ ہلکا ہوگیا تھااب یہ انسانی حقوق کی انجمنوں اور سول سائٹی کے نام پررجسٹرڈ ہونے لگے مگرمسئلہ یہ تھا کہ اب انکے سر پر کوئی مضبوط دست شفقت رکھنے کو تیار نہ تھا،ضیاء الحق صاحب کے ’’اسلامی ‘‘مارشل لاء کے بعد توان کی تراہ ہی نکل گئی اور سرخ انقلاب دنیا کے نقشے سے اتر کر تاریخ کی کتابوں میں محفوظ رہ گیا‘البتہ اسکے کچھ باقیات رہ گئے تھے اور اب وہی’’عرب بہار‘‘کے لئے کام لائے جارہے ہیں،ہدایتکاروں کی کوشش ہے کہ تیونس کی طرح یہاں بھی کسی ایک واقعہ کی بنیاد پر عوام مشتعل اور مجتمع ہوکر کھیت کے ہر خوشہ ء گندم کو جلا دیں تاکہ بیمار معیشت کی کمر چارپائی سے لگ جائے اب یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کی زمین یہ بیج نہیں پکڑ رہی یہاں سیاسی معاشی تہذیبی انتشاراورتیونس طرز پر عرب بہار کے لئے کوششیں کرنے والے اک عرصے سے مصروف عمل ہیں چاہ بہار میں قیام پذیر کل بھوشن یادیو بلوچستان میں اسی مشن پرتھا،نئی دہلی علیحدگی پسند مسلح کامریڈ بلوچوں کے ذریعے بلوچستان کا درجہ ء حرارت کشمیر کے برابر لاکر اسلام آباد کو معنی خیز پیغام دے رہا تھا لیکن پیامبر پکڑا گیا،کل بھوشن کی مشکیں کس دی گئیں اور ایران کے علاقے چاہ بہار سے یہاں عرب بہار کے شعلے دیکھنے کی خواہش حسرت بن گئی۔ پاکستان میں اشتراکیت اور قوم پرستی کے رومانس کایہ اتفاق اپنی جگہ لیکن فیض میلے میں لال لال لہرانے کی خواہش اور ہوش ٹھکانے آنے کی وارننگ کی کامیاب لانچنگ کے بعد ایک دم سے طلباء یونین پر پابندی کے خلاف ملک کے مختلف علاقوں میں منظم سرخ مظاہرے اتفاق نہیں ہو سکتے اور پھر ان مظاہروں کو جس اہتمام سے برطانوی اور امریکی نشریاتی اداروں اور سوشل میڈیا پر اشتراکیت کے زیرسایہ ویب سائٹس نے کوریج دی وہ بھی خاصی معنی خیز ہے یعنی بات بالکل واضح ہے پاکستان میں’’ عرب بہار‘‘ کی خواہش اور سازش کا مقام بدلا ہے مرکز نہیں ۔۔۔ ہلہ بول ہلہ بول کے ہیجان انگیز بول نوجوانوں کو اکسارہے ہیں۔