مکرمی ! حکومت چائلڈ لیبر کیخلاف صرف آگاہی مہمات پر سرمایہ خرچ کرتی ہے مگر عملی میدان میں کوئی خاطر خواہ حکمت عملیاں نہیں اپنائی جاتی ہیں کیونکہ چائلڈ لیبر سے زیادہ متاثر ہمارے دیہاتی علاقہ جات ہیں جہاں نہ تو زیادہ ترلوگ اخبار پڑھنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور نہ ہی دوسرے جدید زرائع ابلاغ سے روشناس ہیں جس کی وجہ سے آج بھی پاکستان میں چائلڈلیبر کی شرح تقریبا 12.5ملین سے تجاوز کر چکی ہے اگر ہمیں اس چائلڈ لیبر جیسے بھیانک اور موذی مرض سے بچنا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم صرف تقریروں اور کتابوں کی حد تک ہی اپنے جذبات کا اظہار نہ کریں بلکہ ہمیں عملی زندگی میں بھی اس ناسور کیخلاف ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو ایسے ادارے تشکیل دینے چاہیے جو بھٹہ ،فیکٹریز اور ہوٹلز وغیرہ پر کام کرنے والے بچوں کو پکڑنے کے بجائے ان کے گھروں میں جائیں ۔ اور ان کے والدین اور گردونواع سے حقائق جاننے کے بعد اس مسئلے کا حل نکالیں ۔اس طرح سے ہر پہلو مجبو ری یا زبر دستی سامنے آجائے گی اور پھر مسئلے کی اصل نوعیت کو دیکھتے ہوئے اس کا سدباب ہمیں اس المیے سے مکمل اور ابدی نجات فراہم کرے گا ۔ (سعدیہ ولائیت ۔ حافظ آباد)