اینٹی کرپشن پنجاب کی جانب سے شروع کی گئی 400اشتہاری ملزمان کی گرفتاری کی مہم سست روی کا شکار ہو گئی ہے۔پاکستان میں بدعنوانی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے وفاقی سطح پر اس وقت 7 ادارے کام کر رہے ہیں مگر اس کے بوجود ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹس کے مطابق ملک میں یومیہ کرپشن کاحجم 10 سے 12 ارب روپے ہے۔ حکومت پنجاب نے 1961ء میں سرکاری اداروں میں کرپشن کی روک تھام کے لئے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کا ادارہ قائم کیا تھا بدقسمتی سے یہ ادارہ اپنے قیام کے مقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام ہے جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس اہم ترین ادارے کا اپنا سٹاف ہی نہیں۔ اینٹی کرپشن کے اکثر سربراہوں سمیت اہلکار پولیس سے مستعار لئے جاتے ہیں جبکہ ادارے کو سب سے زیادہ شکایات بھی پولیس کے محکمے کے متعلق موصول ہوتی ہیں۔ ایک تاثر تو یہ بھی ہے کہ سیاسی اشرافیہ نے اپنی لو ٹ مارچھپانے کے لئے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ میں چہیتوں کی تقرریاں کر رکھی ہیںیہی وجہ ہے کہ جب نیب نے اینٹی کرپشن پنجاب سے میگا کرپشن کا ریکارڈ طلب کیا تو سفارشی اہلکاروں نے ریکارڈ فراہم کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ اب 400اشتہاری ملزمان کی گرفتاری کی برائے نام مہم کے سست روی کے شکار ہونے کی اطلاعات ہیں۔ بہتر ہو گا حکومت ملک سے کرپشن کے انسداد کے لئے پہلے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ سے کرپشن کے خاتمے کیلئے موثر اقدامات کرے اور ادارے میں اہلیت اور میرٹ پر اپنا سٹاف بھرتی کیا جائے تاکہ صوبے کو کرپشن کے عفریت سے نجات دلائی جا سکے۔