۱۴ مئی ۲۰۰۶ء کو پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان لندن میں آٹھ صفحات پر مشتمل ایک معاہدہ ہوا ۔اس معاہدے میں مشرف حکومت کی طرف سے متعارف کروائی گئی آئینی ترامیم، جمہوریت میں فوج کی حیثیت ،نیشنل سکیورٹی کونسل ، احتساب اور عام انتخابات کے بارے میں دونوں جماعتوں نے ایک مشترکہ نکتہ نظر پیش کیا‘اس دستاویز کو چارٹر آف ڈیموکریسی یعنی میثاقِ جمہوریت کہا گیا۔اس چارٹر پر دستخط سے قبل یہ مذاکرات ایف آئی اے کے سابق سربراہ رحمان ملک کی رہائش گاہ پر ہوئے تھے ۔ان مذاکرات میں مسلم لیگ نون کی طرف سے نواز شریف‘شہباز شریف‘اقبال ظفر جھگڑا‘چودھری نثارعلی خان‘احسن اقبال اور غوث علی شاہ شریک تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے مخدوم امین فہیم‘رضا ربانی‘ خورشید شاہ‘اعتزاز احسن اور راجہ پرویز اشرف ۔ چارٹر آف ڈیموکریسی میں اٹھائے گئے نکات آج بھی اتنے ہی اہم ہیں‘جتنے ۲۰۰۶ء میں تھے۔چارٹر آف ڈیموکریسی میں جن سفارشات پر زور دیا گیا اور جو اہم نکات اٹھائے گئے‘ہماری سیاسی تاریخ اس کی گواہ ہے۔سوال تو یہ ہے کہ وہ چارٹر آف ڈیموکریسی محض ایک سال بعد ناکام کیوں ہو گیا تھا؟ بظاہر یہ بتایا گیا کہ جولائی ۲۰۰۷ء میں نواز لیگ کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں پیپلز پارٹی اور دوسری اپوزیشن جماعتوں میں صدر مشرف کی وردی کے معاملے پر اختلاف ہوا جس کے بعد پیپلز پارٹی کے بغیر نواز شریف نے دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مل کر پی ڈی ایم بنالی اور یوں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے درمیان ہونے والا یہ تاریخی معاہدہ ناکام ہو گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ چارٹر آف ڈیموکریسی میں جن نکات کی سفارش کی گئی تھی کیا ان پر عمل واقعی ممکن تھا یا نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرف سے صرف’ شوشہ‘ چھوڑا گیا تھا تاکہ قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جائے اور مظلومیت کا واویلا مچا کر عوامی ہمدردیاں سمیٹی جائیں۔مزید یہ کہ اس وقت بنائی جانے والی پی ڈی ایم نے جمہوریت کی بحالی اور اداروں کی آئینی حیثیت مضبوط کرنے کے لیے کتنا مثبت کردار ادا کیا اورچارٹر آف ڈیموکریسی میں اٹھائے گئے نکات کو عملی شکل دینے میں یہ دونوں جماعتیں واقعی سنجیدہ تھیں ؟یہ سوالات بہت اہم ہیں۔جولائی ۲۰۰۷ء کے بعد ہم نے دیکھا کہ یہ دونوں سیاسی جماعتیں کسی ایک شق پر بھی عمل نہیںکر سکیں۔آج جب عمران خان نے ان دونوں پارٹیوں کو سیاسی اور ذہنی شکست دی‘یہ ایک دفعہ دوبارہ اکٹھی ہو گئیں اور ایک دفعہ پھر پی ڈی ایم بن گئی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ نام نہاد اتحاد کب تک رہتا ہے‘کیا یہ اتحاد صرف عمران خان کی حکومت گرانے اور اگلے جنرل انتخابات جیتنے تک قائم رہے گا یا اس اتحاد کا کوئی سیاسی مستقبل بھی ہے۔ ہمارے دوستوں کا خیال ہے کہ موجودہ سیاسی اور آئینی بحران کے نتیجے میں ایک اور چارٹر آف ڈیموکریسی ہونا چاہیے تاکہ جمہوریت کی بحالی اور مضبوطی ممکن ہو سکے اور موجودہ سیاسی جنگ کو ختم کرنے کا واحد حل بھی یہی ہے کہ عمران خان‘شہباز شریف ‘بلاول بھٹو‘مولانا سراج الحق اورمولوی فضل الرحمن ٹیبل ٹاک کریں اور ایک متفقہ چارٹر دستخط کریں اور پھر اس بات کا حلف اٹھائیں کہ وہ اس چارٹر کو ذاتی مفاد یا کسی اندرونی یا بیرونی دبائو میں آ کرخود توڑیں گے اور نہ ٹوٹنے دیں گے۔ اس معاہدے میں ایک ضروری شق کو شامل کیا جائے جو ۲۰۰۶ء کے میثاق میں بھی شامل تھی‘یعنی آئندہ یہ دو سیاسی جماعتیں (نون لیگ و پی پی پی)کسی فوجی حکومت میں نہ تو شامل ہوں گی اور نہ ہی حکومت میں آنے اور منتخب حکومت کے خاتمے کے لیے فوج کی مدد طلب کریں گی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں نے آج تک نہ کسی جمہوری حکومت کو سپورٹ کیا اور نہ ہی جمہوریت کی بحالی کے لیے کوئی کردار ادا کیا۔ہماری جمہوریت صرف اس وقت تک رہتی ہے جب تک ہم خود حکومت میں ہوتے ہیں۔جس دن ہم حکومت سے باہر ہو جائیں‘ہمیں منتخب حکومت غیر جمہوری لگنے لگتی ہے اور ہم اسے گرانے کے لیے ہر طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں‘ہم اندرونی و بیرونی سازشوں کو بھی اپنا جمہوری حق سمجھتے ہیں ۔ بدقسمتی سے پاکستان میںپچھلے تقریباًچالیس سے یہی ہو رہا ہے اور موجودہ سیاسی حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ آئندہ بھی یہی ہوتا رہے گا،درجنوں چارٹر آف ڈیموکریسی بھی ہمارے کردار اور ہماری سیاسی ذہنیت کو نہیں بدل سکتے۔اس میں قطعاً دو رائے نہیں کہ ملکی مفاد کی خاطر ہمارا مل بیٹھنا ناگزیر ہوچکا‘عمران خان کو ضد چھوڑنی ہوگی اور شریف برادران کو اپنی ناکامیوں کو تسلیم کرنا ہوگا تاکہ ایک متفقہ میثاقِ جمہوریت ہو جس کا مقصد حقیقی جمہوریت کی بنیادیں مضبوط کرنا ہو۔ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ جو بھی پارٹی حکومت میں آئے‘وہ اپنی مدت پوری کرے‘ہمیںیہ بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ الیکشن کمپین میں ہم ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے جلسوں میں صرف اور صرف اپنی کارکردگی پر بات کریں‘ہمیںالیکشن ریفارمز پر بات کرنی ہوگی‘الیکشن کے طریقہ کار کو جدید کرنا ہوگا ‘ای وی این مشین بھی ناگزیر ہے تاکہ دھاندلی کا بیانیہ ہمیشہ کے لیے دفن کیا جا سکے۔ہمیں ۲۰۰۶ء کی طرح اداروں کی حدود کا بھی تعین کرنا ہوگا‘ہمیں کرپشن کے خاتمے کے لیے بھی منصوبہ سازی کرنی ہوگی ۔ ہمیں اداروں کے آڈٹ کا بھی شفاف طریقہ متعارف کروانا ہوگا‘ہمیں فوج سے بھی معاملات طے کرنا ہوں گے کہ جمہوریت کی بحالی کے لیے وہ بھی اپنا کردار ادا کرے‘ہمیں عدلیہ کا نظام بھی بہتر کرنا ہوگا تاکہ کسی جج پر جانبداری کا الزام نہ لگ سکے‘ہمیں پاکستان کے تمام اداروں کے بجٹ پر بھی بات کرنا ہوگا تاکہ ملک کا معاشی نظام مضبوط ہو سکے۔ہمیں آئی ایم ایف سمیت قرضوں کے تمام ذرائع پر کوئی متفقہ پلان ترتیب دینا ہوگا اور یہی جمہوریت کے لیے بہتر ہے۔ورنہ تو موجودہ سیاسی اور آئینی بحران کے بعد ہم خود مارشل لا کا راستہ ہموار کر رہے ہیں‘ہمیں اس سے بچنا ہوگا اور ہماری سیاسی جماعتوں کو ایک نیامعاہدہ کرنا ہوگا تاکہ یہ ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ سکے۔