میری بیوی نے آئی پیڈ سے آنکھیں اٹھا کر کہا’’فہمیدہ ریاض مر گئی ہے‘‘ اگر میں یہ کہوں کہ میں ایک گہرے صدمے میں چلا گیا اور فہمیدہ کے ساتھ اس کی شاعری اور شخصیت کے حوالے سے جتنی چاہت جتنا احترام تھا‘ ان سب کی تصویری البم کھولتا ہوں تو تمام تصویریں سیاہ ہو گئی ہیں۔ فنا کے رنگ میں معدوم ہو چکی ہیں تو شاید یہ درست نہ ہو کہ مجھے یکدم یقین نہ آیا۔ تو میں نے مونا سے کہا ’’لیکن… وہ ابھی کیسے مر سکتی ہے‘‘ تو وہ کہنے لگی’’جیسے انتظار حسین‘ عبداللہ حسین اور یوسفی صاحب مر گئے ایسے وہ بھی مر گئی‘‘ اس پر میں نے احتجاج کے لہجے میں کہا’’یہ تینوں تو بوڑھے بابے تھے۔ ان کے تو مرنے کے دن تھے۔ فہمیدہ کے دن تو نہ تھے‘‘ وہ کہنے لگی’’موت کا حساب کمزور ہوتا ہے وہ دن نہیں گن سکتی‘‘ میں نے کراچی آرٹس کونسل کی ’’گیارہویں بین الاقوامی اردو کانفرنس کے لئے رخت سفر باندھ رکھا تھا کہ احمد شاہ نے اتنے فون کئے کہ میں نے زچ ہو کر کہہ دیا کہ اچھا بابا آ جائوں گا۔ تب میں نے سوچا کہ اگر فہمیدہ مر ہی گئی ہے تو عجب اتفاق ہے میں آج ہی کراچی جا رہا ہوں تو کسی نہ کسی طرح وہاں اس کے سوگ میں شریک ہو جائوں گا۔ تب مونا میری اداسی بھانپ کر بولی ’’وہ یہاں ہمارے شہر لاہور میں مر گئی ہے‘‘’’مجھے فہمیدہ پر بہت غصہ آیا کہ یہ کیا بات ہے کہ میں ابھی کراچی جا رہا ہوں اور تم لاہور میں اپنی ڈاکٹر بیٹی کے ہاں مر گئی ہو۔ اگلے چار پانچ دنوں میں اردو کانفرنس کے ہر اجلاس میں فہمیدہ ریاض کے رخصت ہو جانے کی اداسی میری سہیلی رہی۔ مجھے وہ ہر چہرے میں دکھائی دیتی۔ ہوٹل واپس آتا تو اس کا رنج میرے ساتھ چلا آتا۔ میں کوئی بھی لباس پہنتا تو فہمیدہ کی اداسی اس میں سرایت کر کے ایک کفن کر دیتی۔ آرٹس کونسل کراچی کے وسیع ہال میں جتنے بھی لوگ افتتاحی تقریب کے لئے موجود تھے وہ سب کے سب مجھے لگتا کہ فہمیدہ کی موت پر سوگوار ہیں۔ میں قدرے تاخیر سے پہنچا اور کان لپیٹ کر صدارتی پینل میں شریک ہو گیا۔ محمد احمد شاہ نے حسب معمول ایک دھواں دار تقریر کی یہاں تک کہ ہال میں ان کے جذبے اور دوستی کا دھواں بھر گیا۔ تب میں نے غور کیا کہ ہمارے درمیان سندھ کے نوجوان وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ بھی کب کے بیٹھ چکے تھے۔ ہما میر چہک رہی تھیں۔ وزیر اعلیٰ بھلے لوگ لگتے تھے اور انہوں نے ایک بھلی سی تقریر کی۔ ناصر عباس نیر جن کی تنقید کا طوطی ان دنوں ہر ادبی جنگل میں بولتا ہے اور میرے دیرینہ دوست انڈیا کے ڈاکٹر شمیم حنفی نے کلیدی مقالے پیش کئے۔ میں نے قیام کے لئے اپنے پسندیدہ سمندری بیچ لگژری ہوٹل کو ترجیح دی جس کے پارسی مالک ڈنشا آواری ہمیشہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ کھڑکی کے پردے پرے کئے تو سمندر اندر چلا آیا۔ رات گئے ہم کھانے کے لئے اس ہوٹل کے سمندر میں تیرتے ہوئے اوپن ایئر ڈائننگ روم کے عرشے پر گئے۔ جہاں ترکی کے خلیل طوقار سے ملاقات ہوئی اور ایک عرطے کے بعد ہوئی۔ وہ میرے دوست ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار کے داماد ہیں اور استنبول یونیورسٹی میں اردو کے معلم ہیں۔تہران یونیورسٹی میں اردو کی لیکچرر وفا یزداں منش جنہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے ایک دلکش چہرے والی خاتون ہیں جن سے بہت گفتگو ہوئی۔ ضیاء الحسن اور ان کی بیگم حمیدہ شاہین جو میری پسندیدہ شاعرہ ہیں، بھی وہاں موجود تھے اور ہاں باکمال فوٹو گرافر کامران سلیم بھی میرے ہمراہ تھا۔ اگر وہ ہر قدم پر مجھے سہارا نہ دیتا تو میں جانے کب کا تھکاوٹ سے لڑکھڑا کر ڈھیر ہو جاتا۔ تھینک یو کامران! اور تب مین گرو کے نیم تاریک جنگلوں میں سے آبی پرندوں کی ایک ڈار نے جنم لیا۔ سرچ لائٹ کی زدمیں آ کر وہ سب کے سب پگھلی ہوئی چاندی میں ڈھل گئے۔ یہ منظر مجھے مدہوش کرنے کے لیے کافی تھا اور تب یکدم فہمیدہ ریاض کے بچھڑنے کی اداسی ان آبی پرندوں کے پروں میں بھی سرایت کر گئی ۔ تب میں نے فہمیدہ کی سوگواری سے کہا کہ، اے رنجیدگی تو رخصت ہو جا اگر تو یوں میرے ساتھ ساتھ رہی تو میں کیسے اس بین الاقوامی اردو کانفرنس سے لطف اندوز ہو سکوں گا۔ تو چلی جا۔ وعدہ کرتا ہوں کہ میں واپسی پر فہمیدہ ریاض کو پھر سے یاد کروں گا۔ اب چلی جا۔ اور وہ چلی گئی پرندے پھر سے چاندی رنگ کے ہو گئے اور سمندروں پر اڑانیں کرنے لگے۔ اس کانفرنس کے دوران اگر آرٹس کونسل کی خوشگوار انجم اور مہربان واصف ہمہ وقت ایک کار صرف میرے لئے مخصوص نہ کرتے تو میں بہت خجل خوار ہوتا۔تھینک یو انجم اور واصف! کانفرنس کے دوسرے دن ہر شام کو میرے لئے ایک خصوصی سیشن ترتیب دیا گیا تھا اور مجھے کچھ شرمندگی بھی ہوئی کہ میں واحد ادیب تھا جس کی پذیرائی کے لئے ایک پورا سیشن وقف کر دیا گیا تھا اور بقول احمد شاہ کم از کم دو نہایت معتبر حضرات نے اور ایک خاتون شاعرہ نے کانفرنس میں شرکت کرنے سے صرف اس لئے انکار کر دیا تھا کہ آخر تارڑ ہی کیوں‘ ہم کیوں نہیں۔ تو احمد شاہ نے کہا تھا کہ آپ آئیں نہ آئیں یہ آپ کی مرضی ہے لیکن میں تارڑ کے حوالے سے مجبور ہوں۔ کہ کراچی کے لوگ صرف اس کے لئے گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور اس سیشن میں ایسا ہی لگتا تھا کہ کراچی والے اپنا گھر بار چھوڑ کر آئے ہیں۔ تھینک یو اے کراچی کے لوگو۔ اگرچہ آپ میں سے کچھ لوگ اپنے شیر خوار بچے بھی لے کر آئے تھے جو میری گفتگو کے دوران باں باں روتے چلے جاتے تھے۔ کوئی دس بارہ برس پیشتر جرمنی کی ایک سرکاری ادبی تنظیم’’لٹریٹر ورک سٹاٹ نے مجھے میرے ناول’’راکھ‘‘ کے حوالے سے برلن میں مدعو کیا۔ یہ تنظیم ہر برس کسی سائوتھ ایشیئن ناول نگار کو برلن میں آنے کی دعوت دیتی تھی اور اس کے اعزاز میں ایک ادبی نشست کا اہتمام کرتی تھی تو اس برس مجھے سائوتھ ایشیا کا ایک نمائندہ ترین ناول نگار قرار دیا گیا۔ ہائیڈل برگ یونیورسٹی کی پروفیسر کرسٹینا آسٹن ہیلڈ جنہوں نے کولمبیا یونیورسٹی نیو یارک کی فرمائش پر ’’راکھ‘‘ کو برصغیر کا ایک نمائندہ ناول قرار دے کر ایک طویل مقالہ تھا اور کولمبیا یونیورسٹی میں پیش کیا تھا۔ وہ خصوصی طور پر ہائیڈل برگ سے برلن چلی آئیں۔ اس محفل کی میزبانی کی خاطر اور اس شب مجھے کسی عارف نقوی نے فون کیا کہ میں آپ سے ملاقات کرنے کی خواہش رکھتا ہوں۔ نقوی صاحب میرے ہوٹل کے کمرے میں چلے آئے اور وہاں ہندوستان کے نہایت پسندیدہ اردو شاعر امید فاضلی مرحوم بھی موجود تھے اور انہوں نے مجھے اپنی ایک کہانی سنائی۔ بعدازاں اپنے فلیٹ میں کھانے کے لئے مدعو کیا جہاں ان کی جرمن اہلیہ سے بھی ملاقات ہوئی۔ میں نے اپنے ناول’’اے غزالِ شب‘‘ میں عارف نقوی کو ایک مرکزی کردار کے طور پر تخلیق کیا اور مجھے شک تھا کہ وہ جذباتی کمیونسٹ جو کبھی اداکار رہا تھا، مر چکا ہو گا کہ اس ملاقات کے بعد وہ میرے لئے گمنام ہو گیا تھا۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ اردو کانفرنس کے دوران ایک خوش شکل گورا چٹا بوڑھا میری جانب چلا آتا ہے اور کہتا ہے ’’تارڑ صاحب‘‘ میں عارف نقوی ہوں‘‘ (جاری)