یہ اصطلاح ہمارے دیہات کے پنجابی کلچر کا حصہ ہے۔ دو بھائیوں کے بچے جو آپس میں چاچا اور تایا کی اولادیں ہیں وہ عموماً یہ اصطلاح استعمال کرتے ہیں ہم آپس میں ’’چاچے تائے کے ہیں‘‘ معنی کے حساب سے یہ تہہ دار اصطلاح ہے کیونکہ اس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔ حالات و واقعات کے سیاق و سباق کے مطابق ۔سو اس کا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارا آپس میں بہت پیار و محبت ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا کہ ہماری آپس میں مقابلہ بازی چلتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمارا آپس میں ’’شریکا‘‘ ہے شریکا بھی پنجابی Slangہے۔ جس کے معنی ہیں مقابلہ بازی، لاگت بازی، حسد اور جلن کے جذبات۔ ایک دوسرے کی خوشی میں دل سے شریک نہ ہونا۔ کامیابی پر اندر ہی اندر کڑھنا۔ ایک دوسرے کے معاملات میں ٹانگ اڑانا۔ دوسرے کو مسائل میں دیکھ کر دلی تسکین حاصل کرنا اور خوش باش دیکھ کر تکلیف محسوس کرنا۔ ’’شریکے‘‘ سے جڑے ہوئے یہ تمام جذبات و احساسات اُن خاندانوں میں زیادہ ترپائے جاتے ہیں جو جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہوں ایک بھائی اپنے بچوں کو شہر کے اونچے اور مہنگے سکول میں داخل کروا لے تو دوسرے بھائی کی بیوی اور بچوں کے لیے یہ انا کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ ایک بھائی کی بیوی مہنگے برانڈ کے کپڑے پہن لے تو دوسرے بھائی کے گھر لڑائی پڑ جاتی ہے۔ یعنی ایک مسلسل مقابلہ بازی کی فضا قائم رہتی ہے۔ میرے ایک عزیز ہیں ان کا بیٹا اور ان کے بھائی کا بیٹا ایک ہی کلاس میں پڑھتے ہیں۔ نمبروں کا مقابلہ صرف دونوں بچوں کے درمیان نہیں ہوتا بلکہ دونوں خاندانوں کے لیے ناک کا مسئلہ بن جاتا ہے یہ چاچے تائے کی اولادوں کے درمیان پائے جانے والے ’’شریکے‘‘ کا ایک پس منظر ہے۔ یہ طویل تمہید باندھ کر مجھے آپ کو آج حمزہ شہباز اور مریم نواز کی کہانی سنانی ہے۔ دونوں نوجوان سیاستدان آپس میں چاچے تائے کی اولادیں ہیں۔ ہم ان کے بچپن لڑکپن ‘ تعلیمی دور کے حوالے سے تو زیادہ نہیں جانتے کہ ان کے درمیان کس قسم کا مقابلہ اور موازنہ تھا یا نہیں لیکن اس وقت بہرحال وہ ایک مقابلے اور بے رحم موازنے کی زد میں بھی ہیں۔ اپنے اپنے والد کے سیاسی وارث تو دونوں ہیں ہی۔ اصل جھگڑا اور مقابلہ یہ ہے کہ مستقبل میں ن لیگ کی قیادت کا تاج کس کے سر پر سجایا جائے گا۔ یا پھر مستقبل قریب میں ہی کون سیاسی میدان میں اہم کردار ادا کرے گا۔ یہ سوال اہم اس لیے ہے کہ پاکستان میں موروثی سیاست کی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔ دونوں کی خاندانی روایات اگرچہ قابل رشک رہیں ہیں۔ دونوں کے والد آپس میں اتنی مثالی محبت میں تمام عمر بندھے رہے ہیں کہ سیاست اور اقتدار جیسے بے رحم کارزار میں بھی جہاں رشتے اپنی پہچان بھول جاتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کی طاقت بنے رہے۔ اختلافات اگر کہیں دلوں میں ہوں بھی تو کبھی اس نہج پر نہیں پہنچے کہ چوکوں چوراہوں پر موضوع بنیں۔ مجموعی طور پر برادر بزرگ نواز شریف اور برادر خورد شہباز شریف باہمی عزت و احترام کے رشتے میں منسلک رہے ہیں۔ مگر راوی کہتے ہیں ان کی بیگمات مرحومہ کلثوم نواز، شہباز شریف کی پہلی بیگم نصرت شہباز کے درمیان آپس میں کم ہی بنی ہے۔ پھر وہی ’’دیورانی جیٹھانی‘‘والا ٹیڑھا رشتہ وہی جوائنٹ فیملی سسٹم میں بسنے والے خاندانوں کا المیہ کہ آپس میں ایک مقابلے بازی کی فضا خوامخواہ بنی رہتی ہے۔ اور اس فضا میں اعتماد اور محبت پرورش نہیں پاتی۔ بلکہ بداعتمادی اور مخاصمت بھی جڑ پکڑتی ہے۔ حمزہ اور مریم بھی انہی مائوں کی اولادیں ہیں۔ نواز اور شہباز میں خون کا رشتہ تھا۔ سگے بھائی ہیں جبکہ مریم اور حمزہ میں وہی شریکے کی فضا ہے جو چاچا تائے کی اولادوں میں عموماً ہمارے کلچر میں پائی جاتی ہے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور بہتر سٹیٹس کی خواہش۔ عام خاندانوں میں بھی یہی ہوتا ہے۔ یہاں تو پھر اختیار و اقتدار کے سلسلے ہیں۔ لیڈری کے خواب میں قیادت کرنے کا خمار ہے۔ شریف خاندان کے اس سے پہلے اگر کبھی کوئی آپسی کے اختلافات رہے بھی ہوں گے تو گھر کی چار دیواری سے باہر نہیں آئے۔ مگر اب بات حمزہ اور مریم تک آ گئی ہے تو موازنے اور مقابلے کی ان کہی باتیں اب بحثوں تجزیوں اور مکالمے کا حصہ ہیں۔ سوشل میڈیا کے تھڑے پر بھی اس کی گونج ہے۔ صرف عشق اور مشک ہی نہیں بلکہ کوئی بھی جذبہ شدت اختیار کر لے تو چھپائے نہیں چھپتا۔کس کو یاد نہیں ہے کہ مریم نواز جب اپنی والدہ کی انتخابی مہم چلانے 120 naمیں آئیں تو حمزہ شہباز منظر سے غائب ہو گئے تھے۔ نہ صرف حمزہ بلکہ چچا جان شہباز شریف بھی ان دنوں سلیمانی ٹوپی پہنے رہے۔ کہیں دکھائی نہیں دیے۔ چہ میگوئیاں تو ہونا ہی تھیں۔ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ میں پنجاب کے معاملات عملاً حمزہ شہباز کے ہاتھ میں تھے۔ برسوں انہوں نے پنجاب کی سیاست میں اہم کردارادا کیا ہے۔ اگرچہ وہ جسے کہتے ہیں Clickہونا وہ آج تک نہ ہو سکے۔ لیکن پنجاب میں چونکہ پارٹی ورکروں کا رابطہ ہی ان سے رہا تو انہوں نے وفاداروں کی ایک کھیپ ضرور تیار کی ہے۔ یہی وہ وفادار تھے جو مریم نواز کی موجودگی میں حمزہ شہباز زندہ باد کے نعرے لگاتے تھے۔ مریم نواز کی شخصیت حمزہ کے مقابلے میں زیادہ دبنگ اور چارمنگ ہے۔ ان کے نقطہ نظر سے اختلاف رکھنے والے بھی یہ رائے دیتے ہیں کہ وہ بہترین انداز میں اپنا موقف پیش کرتی ہیں بات کرنے کا سلیقہ ان کو آتا ہے۔ تقریر کا ہنر بھی خوب ہے۔ جارحانہ انداز میں مجمعے کو اپنی جانب متوجہ کرنا اور اپنی بات سننے پر آمادہ کرنا سیاست کے میدان میں ایک سیاست دان کا سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔سیاستدان آدھی جنگ اپنی گفتگو اور باتوں سے جیت لیتا ہے۔ کم از کم پاکستان میں تو یہ بات صادق آتی ہے اور مریم نواز اس میدان میں حمزہ شہباز کو مات دیتی نظر آتی ہیں۔ نہ صرف اپنے غم زاد۔ بلکہ اپنے بھائیوں اور والد صاحب کے مقابلے میں بھی وہ بدرجہا بہتر گفتگو کر سکتی ہیں۔ ایک بہادری کا بانکپن ان میں موجود ہے۔ والد کے ساتھ جیل جانے کے لیے پاکستان آنے کا سفر۔ گرفتاری۔ اس سارے منظر میں ان کا اعتماد اور حوصلہ کمال تھا۔ یا شاید وہ اپنے اندر کے حقیقی جذبات چھپانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ بھی ایک سیاستدان کی الگ خوبی ہوتی ہے۔ اب تو خیر جیل یاترا کا سرخاب کا پر بھی ان کی ٹوپی میں موجود ہے۔ جیل تو خیر حمزہ شہباز نے بھی مشرف کے مارشل لاء میں کاٹی۔ لیکن وہی بات کہ کسی کو قدرت نے ایسی شخصیت اور خوبیاں عطا کی ہوئی ہیں کہ ان کا بولنا ‘کہنا‘ سننا‘ سب کو دکھائی دیتا ہے اور اپنا ایک اثر رکھتا ہے۔ مریم کے مقابلے میں حمزہ کو سیاست میں اپنی قابلیت ثابت کرنے کے زیادہ مواقع ملے۔ ان میں مگر سپارک ہی اتنا تھا سیاست میں مریم ہی شریف خاندان کی سیاسی وارث بنیں گی۔ ان کا کردار اہم دکھائی دے رہا ہے۔ حمزہ اور مریم کے درمیان اس وقت جو اختلاف دبے دبے اور دھیمے دھیمے ہیںآنے والے وقت میں مزید کھل کر سامنے آئیں گے۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے باہمی اعتماد اور احترام کا زمانہ گزر گیا جب آپس کی بات گھر کی چار دیواری تک محدود رہتی تھی اب سیاست میں مقابلہ چاچے اور تائے کی اولادوں کے درمیان ہے۔ شریکے کی فضا ہے اسی لیے تو صورت حال یہ کہ ؎ درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغِ رہ گزر کو سب خبر ہے!