یہ اہل بصیرت کا مشاہدہ ہے اور یہی تاریخ کا سبق بھی ہے کہ’’چاہ کن راچاہ درپیش‘‘یعنی دوسروں کے لیے گڑھا کھودنے والا خود بھی اسی میں گرتاہے ۔برسوں قبل اسلامیان کشمیر کوبھسم کرنے کے لیے بھارت نے کشمیرمیں جوآگ لگائی تھی آج وہی آگ دہلی کے دروبام جلارہی ہے ۔ پورے ہندوستان میں اس آگ کے بھڑکتے شعلے بلندہورہے ہیں۔ آج 20کروڑسے زائدبھارتی مسلمان اوردلت کے بشمول بیسیوں کروڑ بھارتی شہری ہٹلرمودی کے بنائے جانے والے مسلم کش قانون کے خلاف سراپااحتجاج ہیں اور یہ احتجاج باضابطہ طورپرایک تحریک کی شکل اختیارکرچکا ہے۔ کروڑہامسلمانوں اوردیگراقلیتوں کے ہاتھ مودی کے گریبان پرپڑچکے ہیںاور یہ مکافاتِ عمل جس سے ہندوستان آج گذررہاہے۔ خود گرتے ہیں اوروں کو گرانے والے جلنے سے نہ بچ سکے ، جلانے والے ملائیشیاکے وزیراعظم جناب مہاتیرمحمداورانسانی حقوق کے عالمی شہریت یافتہ چمپئن نوم چومسکی نے بھی احتجاجی آواز بلند کی ہے۔ساری دنیاشہریت کے قانون کے خلاف آواز یں اٹھار ہی ہے اور یہ آوازیں اس قدرتیز ‘پراثر اور بامعنی ہیں کہ ہٹلر مودی سرکار پر بوکھلاہٹ طاری ہے اور کالے قانون کے آر کیٹیکٹ اوردشمن اسلام بھارت کے نئے چانکیہ امیت شاہ کی حالت ایسی ہے کہ نہ نگلتے بن رہا ہے نہ اگلتے! ہندوستان میں جو احتجاج جاری ہے اس میں ہر گذرتے دن کے ساتھ شد ت آتی جارہی ہے۔مودی اینڈکمپنی نے اپنے نظریاتی مخالفین بالخصوص اس خطے کے مسلمانوں کورگیدنے کے لیے جن شرمناک منصوبوں پر عملدرآمد کیا،ہندوستان کے مسلمانوں سمیت دیگرتمام اقلیتوں کاکافیہ حیات اس قدر تنگ کردیاگیاتھاجس کے خلاف کوئی لب کھولنے کی جرات نہیں کررہاتھا۔لیکن NRC)اور (CAAکے نام پر مودی کی ایک غلطی سے وہ سارے زہرناک منصوبے الٹ گئے۔ ساراہندوستان آج آتش زیرپاہے اورشہریت ترمیمی قانون جس کے پس پردہ اورجس کی گہرائی میں سفاک عوامل کارفرما ہیں، اس سے بھارت کی کئی ریاستیں برسر انکارہیں ۔ مودی کے متعارف کردہ شہریت کے نئے متنازع قانون کے خلاف گزشتہ ہفتے سے جاری احتجاجی مظاہروں میں مرنے والوں کی تعداد 23ہوگئی ہے۔جبکہ بھارت کی شمالی ریاستوں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں ہفتے کو9افراد ہلاک اور دسیوں زخمی ہوگئے ہیں ۔بھارت کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش’’یوپی‘‘ میں شہریت کے اس نئے متنازع قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس ریاست میں ہلاکتوں کی تعداد پندرہ ہوگئی ہے۔اترپردیش کے تمام شہروں میں مظاہرین نے درجنوں گاڑیوں کو نذر آتش کردیا ہے اور ایک پولیس تھانے کو بھی آگ لگا دی ہے۔واضح رہے کہ اترپردیش ’’یوپی‘‘ میںنریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ہی کی حکومت ہے۔مسلمان دشمنی میں آگے بڑھنے والی بی جے پی حکومت نے احتجاجی مظاہروں پر قابو پانے کے لیے انسداد دہشت گردی اسکواڈ کو متاثرہ شہروں میں تعینات کردیا ہے اور ریاست میں انٹرنیٹ کو مزید اڑتالیس گھنٹے کے لیے معطل رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ادھربھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام کے سب سے بڑے شہر گوہاٹی میں بھی متنازع قانون کے خلاف احتجاجی تحریک زوروں پرہے اورشہرمیں لائوڈسپیکروں پراعلان ہورہاہے کہ متنازع قانون کی تنسیخ تک یہ عوامی احتجاج جاری رہے گا۔ بنیادی طورپر نیا متنازعہ قانون نریندرمودی کے ہندتوا کے ایجنڈے کا حصہ ہے جس کے تحت ملک کے بیس کروڑ سے زائدہندوستانی مسلمانوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے اور انھیں ان کے بنیادی انسانی اور آئینی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔واضح رہے کہ بھارتی شہریت سے متعلق نئے متنازعہ قانون کے تحت بھارت میں تین ہمسایہ ممالک بنگلہ دیش ،پاکستان اورافغانستان سے 31دسمبر 2014کو یا اس سے پہلے داخل ہونے والے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت دے دی جائے گی لیکن اگر وہ مسلمان ہوں گے توانھیں یہ حق نہیں دیا جائے گا۔اس قانون کے نفاذ کے بعد بھارت میں شہریوں کی سرکاری فہرستوں میں سے قریبا 40 لاکھ افراد کے ناموں کو نکال دیا گیا ہے،جوسارے کے سارے مسلمان ہیں۔ان سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی شہریت کادستاویزی ثبوت فراہم کریں، ورنہ انھیں غیرملکی سمجھا جائے گا۔ آج کی تازہ صورتحال یہ ہے کہ بھارت کے باضمیردانشوربھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکرمسلم دشمن شہریت ترمیمی قانون کے خلاف آواز بلندکررہے ہیں۔مشہوربھارتی مورخ رام چندر گوہا نے اس کالے قانون کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ معروف مصنفہ اروندھتی رائے نہ صرف خود میدان میں اتر پڑی ہیں اورعملی طورپر احتجاج میں شریک ہیں بلکہ انہوں نے ہندوستانیوںسے اپیل کی ہے وہ اس کالے قانون کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ۔سی۔اے۔بی کے متنازعہ قانون کو زبردستی تھوپے جانے کے بعدپورے ہندوستان کی جو حالت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ، کالجز و یونیورسٹی اور دیگر ادارے سمیت ملک بھر کے چوک چوراہوں پر عام لوگ اور باضمیردانشوران برسر احتجاج ہیں۔ مودی کی نیت میں اتنی خرابی ہے کہ وہ چاہتاہے ہندوستان کے مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر بے گھر کیا جائے، ان کی جائیدادیں ضبط کی جائیں، ان کے اکاونٹس منجمد کیے جائیں،ان کو سارے حقوق سے محروم کردیا جائے، انھیں غلام بنایا جائے اور پھر ان کو مہاجر کیمپوں میں پھینک دیا جائے۔ ہندوستانی مسلمانوں کامشترکہ موقف ہے کہ اگر وہ بدترین غلامی کی زندگی جیناچاہتے ہیں تو پھر کاغذات کے چکر میں پڑیں، ورنہ بائیکاٹ کا صاف اعلان کریں۔