چترال (نیٹ نیوز)پاکستان کے دور دراز پہاڑی علاقوں میں غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے لیے فٹبال کلب چلانا نہ صرف کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران بلکہ عام حالات میں بھی بہت مشکل ہے ۔تاہم کوہِ ہندوکش کے پہاڑی سلسلے میں واقع چترال میں ایک غریب آبائی علاقے کی ایک فٹبالر کرشمہ علی نے کورونا وائرس کو بھی اپنے خواب کی تکمیل میں رکاوٹ بننے نہیں دیا، ان کا خواب ہے کہ وہ اپنے علاقے کی غریب لڑکیوں کو فٹبال کی تربیت دے کر ان کا مستقبل بہتر بنائیں۔بین الاقوامی سطح پر ہونے والے فٹ بال ٹورنامنٹس میں ملک کی نمائندگی کرنے والی 23 سالہ کرشمہ علی کا کہنا تھا کہ وبا نے تمام مواقع کو لڑکیوں کو فراہم کرنے کے لیے مزید ثابت قدم کیا ۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد سے بذریعہ ٹیلی فون انٹرویو میں کرشمہ علی کا کہنا تھا کہ 'لڑکے جو باہر جا اور کھیل سکتے ہیں، ان کے برعکس لڑکیاں کورونا کی وبا کے باعث سکول بند ہونے سے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئیں ۔میرے لیے یہ آسان نہیں تھا، جب برادری کو فٹبال کیریئر کا معلوم ہوا تو کچھ نے مخالفت بھی کی جبکہ یہ جاری رکھنے پر جان سے مارنے کی دھمکیوں کے پیغامات بھی موصول ہوئے ۔ان کا کہنا تھا کہ فٹبالر بننے کے خواب میں میرے خاندان نے بہت مدد کی۔