دروغ برگردن راوی‘ کہتے ہیں کہ اس وقت کے طبقۂ بالا میں صرف دو شخص شراب سے اجتناب کرتے تھے اورنگ زیب عالم گیر اور مغل سلطنت کے مفتیٔ اعظم! جب کہ حقیقت یہ تھی کہ مفتی اعظم بھی موقع ملنے پر ڈنڈی مار جاتے تھے۔ یہ صرف شہنشاہ تھا جو مکمل پرہیز کرتا تھا۔ اس وقت نیب کا ادارہ ہوتا تو نیب کے ملزمان چیئرمین کی مے نوشی کرتے وقت فلم بناتے اور اس کی معزولی کا مطالبہ کرتے! عجیب معاشرہ ہے‘ نفاق سے لبا لب بھرا ہوا‘ چھلکتا ہوا! پہلا پتھر وہ مارے جس نے خود کوئی گناہ نہ کیا ہو! اخلاقی اعتبارسے پاتال میں گرے ہوئے معززین‘ دوسروں پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔ کیا کسی کو یاد ہے ذوالفقار مرزا نے ایان علی کے بارے میں کیا کہا تھا؟ کیا لوگ اس مغنّیہ کو بھول بیٹھے ہیں جس کے شوہر ملک کے نامی گرامی وکیل نے‘ اسے طلاق دے دی تھی؟ کیا کسی کو کِم بارکر کا نام یاد ہے؟ اس نے کیا کیا انکشافات کئے؟ کیا عوام اس شعبدہ گر حکمران کو بھول گئے جس کے بارے میں مشہور تھا کہ نکاح کے نئے فارم جیب میں رکھتا تھا؟ نکاح کرنا جرم نہیں مگر ماتحت سے اس کی بیوی کو طلاق دلوا کر‘ ماتحت کا ہنستا بستا گھر اجاڑ دینا کیا گھنائونا مکروہ اور غلیظ جرم نہیں؟ کیا سیتا وائٹ کا نام اس ملک کی فضائوں میں نہیں گونجتا رہا؟ جو دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں ان کا ذکر تو چھوڑ ہی دیجیے۔ یہ ہیں وہ لوگ جو اس ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں اور کرتے آئے ہیں تو کیا ان کے احتساب کے لئے حسن بصری کو تعینات کیا جاتا؟ نیب کا چیئرمین بھی انہی کی طرح گوشت پوست کا بنا ہوا، آج کے زمانے کا انسان ہے! ایسا نہیں کہ ان سطور میں چیئرمین کا دفاع کیا جا رہا ہے۔ مگر سوال صرف یہ ہے کہ اس حمام میں جب سب ننگے ہیں تو صرف ایک شخص پر برہنگی کا الزام کیوں لگایا جا رہا ہے؟ ایک صاحب نماز پڑھا رہے تھے۔ پڑھا چکے تو مولوی صاحب آ گئے۔ فرمانے لگے تم تو فاسق ہو‘ تم نماز پڑھا ہی نہیں سکتے۔ اس نے جوابدیا‘ حضرت! پریشان نہ ہوں‘ میرے پیچھے نماز پڑھنے والے بھی سب فاسق ہی ہیں‘ وقت کے اولیاء تو آپ کی اقتدا میں پڑھیں گے! اورنگزیب عالم گیر کے مفتیٔ اعظم کا کیا ذکر! کیا ہر بچے بوڑھے مرد عورت امیر غریب کو نہیں معلوم کہ کون سا دستار پوش مے نوشی کے لئے معروف ہے؟ مذاق سہی‘ مگر کون سا مفتی ہے جو خواجہ سرائوں کے امیر کے ساتھ شادی کے ٹھٹھے کرتا رہا اور لطف اندوز ہوتا رہا۔ اہل مذہب اپنی برادری کے جرائم کو درخور اعتنا نہیں گردانتے۔ ورنہ قندیل بلوچ فیم مولوی صاحب آج مذہبی فرائض ادا نہ کر رہے ہوتے! بھارت یا اسرائیل نہیں‘ گوگل کہتا ہے کہ پورنو گرافی دیکھنے میں یہ ملک اول نمبر پر ہے! ایک اسلام پسند‘ بلکہ سخت اسلام پسند صحافی کا کہنا ہے کہ مے نوشی میں پیارا وطن آٹھویں نمبر پر ہے۔ نیب کے چیئرمین باذوق ہوتے تو معترضین کو ویسا ہی جواب دیتے جیسا‘ اقبال کی زبان میں‘ اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی نے اپنے حریفوں کو دیا تھا ؎ کیا زمانے سے نرالا ہے مسولینی کا جرم؟ بے محل بگڑا ہے معصومانِ یورپ کا مزاج میں پھٹکتا ہوں تو چھلنی کو برا لگتا ہے کیوں ہیں سبھی تہذیب کے اوزار‘ تو چھلنی ‘ میں چھاج میرے سودائے ملوکیت کو ٹھکراتے ہو تم تم نے کیا توڑے نہیں کمزور قوموں کے زجاج؟ تم نے لوٹے بے نوا صحرا نشینوں کے خیام تم نے لوٹی کشتِ دہقاں‘ تم نے لوٹے تخت و تاج پردۂ تہذیب میں غارت گری‘ آدم کُشی کل روا رکھی تھی تم نے‘ میں روا رکھتا ہوں آج حضرت خواجہ بختیار کاکیؒ نے دنیا سے پردہ فرمایا تو وصیت کی کہ ان کی نماز جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کی تہجد کی نماز نہ چھوٹی ہو‘ جس کی تکبیر اولیٰ ہمیشہ ادا ہوئی ہو‘ جس نے غیر محرم عورت کو کبھی نہ دیکھا ہو۔ یہ شرائط بیان کی گئیں تو جنازہ میں شرکت کرنے والوں پر سناٹا چھا گیا۔ کوئی نہ باہر آیا۔ آخر بادشاہ وقت سلطان التمش ‘ روتا سسکیاں لیتا‘ آگے بڑھا اور خواجہ صاحب مرحوم سے شکایت کی’’ امروز پیشِ خلق مرا سِوا کر دی! حضور!‘‘ آپ نے مجھے خلقِ خدا کے سامنے رسوا کر دیا۔ یہ بات تو آپ کے اور میرے درمیان تھی! پھر التمش نے نماز جنازہ پڑھائی۔ یا تو التمش جیسے حکمران لائیے۔ یا نیب کے سربراہ کو برداشت کیجیے پھر اقبال یاد آ گئے۔ ؎ یا چناں کن یا چنین یا اس طرح کر! یا اِس طرح! یا دگر آدم کہ از ابلیس باشد کمترک یا دگر ابلیس بہرِ امتحانِ عقل و دین یا چُنان کُن یا چُنین یا کوئی اور آدم بنا جو ابلیس سے کم ہو( کہ موجودہ انسان تو ابلیس کو پیچھے چھوڑ گیا) یا عقل اور دین کے امتحان کے لئے کوئی اور ابلیس بنا(جو شیطنت میں انسان سے زیاد ہو) یا اس طرح کر۔ یا اِس طرح! نیب کے چیئرمین کا مسئلہ تو چیئرمین اور ان کے ’’خیر طلب‘‘ بھگتتے رہیں گے۔ سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے جس ایڈوائز(طاہر اے خان) کو برطرف کیا ہے۔ اس کے فرائض کیا تھے؟ کیا وزیر اعظم قوم کو بتانا پسند کریں گے کہ مشیروں کی فوج ظفر موج جو انہوں نے اپنے اردگرد سجا رکھی ہے۔ کیا کام کرتی ہے؟ صرف میڈیا کے شعبے کو لیجیے۔ ایک معاون خصوصی برائے اطلاعات ہیں جو وفاقی وزیر کی ہم پلہ ہیں۔ ان کے ساتھ وفاقی سیکرٹری اطلاعات ہے جو نوکر شاہی کا خانہ پر کرنے کے لئے ہوتا ہی ہے۔ اگرچہ اس کے ہونے نہ ہونے سے فرق کچھ بھی نہیں پڑتا۔ پھر افتخار درانی ہیں جو معاون خصوصی ہیں۔ چلیے افتخار درانی کا معاملہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے سے پہلے بھی پارٹی کی میڈیا ٹیم کو سنبھالے ہوئے تھے۔ ان کی تعیناتی منطقی طور پر روا ہے۔ مگر کیا وزیر اعظم قوم کو اعتمادمیں لیں گے کہ انہوں نے یوسف بیگ مرزا کو اس قوم پر کیوں مسلط کیا ہے؟ کون سا کام افتخار درانی اور مشیر اطلاعات نہیں کر سکتے جس کے لئے ان صاحب کو مشیر مقرر کیا گیا ہے؟ حال ہی میں نیب نے ان صاحب کے خلاف تفتیش کا ڈول بھی ڈالا ہے۔ پچھلی حکومتوں اور عمران خان کی حکومتوں میں کون سا جوہری فرق ہے؟گزشتہ حکومتیں بھی انہیں طاہر خانوں اور یوسف بیگوں کے کندھوں سے نیچے گریں اور اب انہی طاہر خانوں اور انہی یوسف بیگوں نے اس حکومت کو کندھوں پر چڑھا رکھا ہے۔ بلکہ یوں کہیے کہ حکومت نے ان آکاس بیلوں کو اپنے اردگرد لپیٹ رکھا ہے۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ جن گناہوں کا الزام عمران خان اپنی پیشرو حکومتوں پر لگاتے تھے۔ وہی گناہ خود کر رہے ہیں اور پورے شدو مد کے ساتھ! وزراء کی فوج ظفر موج الگ ہے اور مشیروں کا ایک لشکر‘ اس کے علاوہ وزیر اعظم کے جلو میں خراماں خراماں چلتاہے۔ کیا خصوصی صفات ہیں ان مشیروں میں؟ ایک نیازی تھا۔ دوسرا ہر حکومت میں کسی نہ کسی صورت میں ان رہا۔ یہاں تک کہ عمران خان بھی اس حوالے سے اُسی سطح پر اتر آئے جس سطح پر گزشتہ حکومتیں اتری تھیں ۔ ناصرکاظمی نے شاید عمران خان ہی کے بارے میں کہا تھا ؎ سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب ورنہ یہ درویش پردے میں ہیں دنیادار بھی