نہ کوئی فال نکالی نہ استخارا کیا بس ایک صبح یونہی خلق سے کنارا کیا گزشتہ روز ہمارے دوست جمال احسانی کی اکیسویں برس تھی۔ یادوں کا دریجہ کھلا تو میں 1997ء میں پہنچ گیا جب میں اور آصف شفیع کراچی گئے تو سب سے پہلے فاطمہ حسن کے ساتھ ہم ہسپتال پہنچے جہاں جمال احسانی کا علاج جاری تھا۔ اس کے پیٹ میں پانی پڑ چکا تھا۔ اس کی حالت یقینا اچھی نہیں تھی مگر وہ ہمیں دیکھتے ہی خوش ہوا جیسے غالب نے کہا تھا کہ ’’ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے‘‘ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور اپنا شعر پڑھا: چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے فاطمہ حسن ہنستے ہوئے آگے بڑھی اور گویا ہوئی’’جمال !مجھے یقین ہے کہ تم سٹھیائے بنا نہیں مرو گے‘‘ سب ہنسنے لگے۔ وہ تو شاید اس لمحے کے انتظار میں تھا۔ پھر اس کے اندر کی بزلہ سنجی خود آئی۔ وہ کمال کا فقرہ باز بھی تھا۔ اس دوران اس نے محبت میں میرا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھ میں لے لیا اور کہنے لگا‘سعد! تم نے بہت اچھا کیا آ گئے۔ دیکھو ناں! اس فاطمہ نے میرے لئے کتنی زحمت اٹھائی ہے کہ میرے پورے خاندان کو اپنے گھر لے آئی ہے۔ وہ فاطمہ حسن کے سوشل سکیورٹی کولیگ بھی تھے۔ پھر مجھے کہنے لگے کہ یار اب کے میں لاہور آئوں گا تو خوب دھوم دھڑکا کریں گے۔ اس کے بعد مشاعروں کا ذکر چلا تو کسی نے کہا کہ بھارت کے مشاعروں میں تو دو لاکھ سے زیادہ سامعین ہوتے ہیں۔ کسی نے کہا ’’جمال!کیا یہ سچ ہے آپ تو بھارت جاتے رہتے ہیں’’جمال احسانی مسکرائے اور بولے وہاں تو تنہائی بھی پچاس ہزار کی ہوتی ہے۔ جب جمال احسانی بے روزگار تھا تو کوئی اسے لے کر اپنے ایک دوست افسر شاعر کے پاس گیا کہ نوکری مل جائے افسر شاعر نے کہا کہ اپنے شعرسنائو۔ جمال احسانی نے اپنی غزل سنائی جس کا مطلع ہے: یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا افسر نے کہا’’سوچتے ہیں‘‘ سفارش کے لئے آنے والے عبیداللہ علیم نے کہا’’تم اپنی نوکری اپنے پاس رکھو یہ نوکری تو اس غزل کے ایک شعر کے برابر بھی نہیں‘ یہ سن کر افسر شاعر نے فوراً ملازمت دے دی۔ مجھے اس ملاقات کا ایک ایک لمحہ یاد آ رہاہے کہ اس نے اپنے بچوں کو بلا کر مجھ سے ملوایا اور ایک نوٹ بک میں اپنی شاعری کے بارے میں اپنی رائے لکھنے کو کہا۔ کیسے کیسے اشعار اس نے کہے: ایک فقیر چلا جاتا ہے پکی سڑک پر گائوں کی آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑائوں کی اس رستے پر پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال ایک دفعہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑھی سیدھے پائوں کی فاطمہ حسن کے ساتھ جمال کے خاندانی مراسم بھی تھے۔ ویسے بھی وہ دوست نواز تھا۔ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ تینوں بچے یو کے میں ہیں اور بیٹی سعودیہ میں بیاہی گئی ہے۔ وہ احسان امرہوی کے شاگرد تھے اور اسی مناسبت سے احسانی لکھتے تھے۔ جمال کی حاضر جوابی ‘ ذہانت اور لیاقت کے سب قائل تھے۔ وہ مشاعروں کی کمپیئرنگ بھی کیا کرتے تھے۔ میں کوئی نقاد تو نہیں کہ ان کی شاعری پر روشنی ڈال سکوں۔ ہاں‘ اتنا جانتا ہوں کہ وہ شعر بہت طرحدار کہتے تھے۔ اسی باعث ان کو پذیرائی بھی ملی۔ وہ کلاسک سے اچھی طرح آگاہ تھے اور جدیدیت سے آشنا۔ گویا ان کی جڑیں اساتذہ کی شاعری میں تھیں اور شاخیں عہد نو میں۔ کراچی ویسے بھی جزیرہ نما ہے کہ اس کی اپنی ہی ایک فضا ہے۔ کیا کریں کراچی کا خیال آتے ہی عافیہ صدیقی کا ضرور ذہن میں آتا ہے اور اس کے لئے دل سے دعا نکلی ہے۔ بہرحال جمال احسانی کی یاد نے ہمیں تنگ کیا تو میں نے کچھ کچھ تحریر کر دیا۔1997ء کی ملاقات جیسے کل کی بات لگتی ہے۔ تب ہی میری مشفق خواجہ اور لطف اللہ خاں سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔ جمال احسانی کے اب کلیات بھی دوست پبلی کیشن سے شائع ہو چکے ہیں ان کے تین شعری مجموعے تھے ’’ستارہ سفر‘‘ ’’خواب سے جاگے ہوتے‘‘ اور ’’تارے کو مہتاب کیا‘‘ اس میں شامل ہیں۔ چلیے چند منتخب اشعار جمال احسانی کے: جو دل کے طاق میں تونے چراغ رکھا تھا نہ پوچھ میں نے اسے کس طرح ستارا کیا ہمیشہ ہاتھ رہا ہے جمال آنکھوں پر کبھی خیال کبھی خواب پر گزارا کیا مری بیاض سے یہ شعر کس نے کاٹے ہیں یہ میرے بعد مرے گھر میں کون آیا تھا اک بھولی ہوئی بات ہے اک ٹوٹا ہوا خواب ہم اہل محبت کو یہ املاک بہت ہے جہاں بدلنے کا وہ بھی گمان رکھتے ہیں جو گھر کے نقشے میں پہلے دکان رکھتے ہیں نہ اجنبی ہے کوئی اور نہ آشنا کوئی اکیلے پن کی بھی ہوئی ہے انتہا کوئی مرے پڑوس میں گزرا ہے سانحہ کوئی وگرنہ صحن میں پتھر تو پھینکتا کوئی بہرحال وہ دور کراچی کا زریںدور تھا۔ خاص طور پر جون ایلیا مشاعروں کی رونق تھے۔ انور شعور اور سحر انصاری تو ماشاء اللہ اب بھی محفلوں میں جادو جگاتے ہیں۔ پھر شاہدہ حسن اور فاطمہ حسن پھر پیرزادہ قاسم صاحب بھی کیسے نفیس آدمی ہیں۔ کراچی میں مشاعروں کا ٹرینڈ بھی ہے۔ دل تو بہت چاہتا ہے کہ کراچی کے مشاعروں میں شرکت کی جائے مگر کوئی سبیل نہیں بنتی۔ کچھ عرصہ قبل میں عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے جرگہ میں گیا تھا کہ محترمہ فوزیہ صدیقی نے بلایا تھا۔ تب انور شعور کے ساتھ سمندر پر ایک بک ایگزبیشن میں گئے۔ یہاں کے اپنے ہی شب و روز ہیں۔ تب تو اہل زبان بھی اک بے نام سی گھٹن میں تھی۔ شاید اب کچھ مطلع نکلا ہے اور خود وہاں کے لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہے۔ خدا کرے کہ اب کراچی آزاد فضائوں میں پھلے پھولے۔ میں تو ہمیشہ اس شعر کو ’’حسن بے شمار‘‘ لکھتا آیا ہوں۔ جمال احسانی21اگست 1951ء کو پیدا ہوئے اور وفات 25فروری 1998ء کو ہوئی: آنکھوں آنکھوں ہریالی کے خواب دکھائی دینے لگے ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہوئے صحرائوں کی