کیا کبھی یہ ایک قوم بنے گی یا ریوڑ ہی رہے گا ؟ اب یہ ہم پر ہے کہ قہرمانوں کی مان لیں ۔ بائیس کروڑ انسانوں کا ملک آئندہ نسلوں کے لیے بھی چراگاہ ہی بنا رہے یا اٹھ کھڑے ہوں ۔ ان کا فیصلہ ان کے منہ پر دے ماریں ۔ کوئی جملہ ایسا ہوتاہے کہ دریا میں ملا دیا جائے تو اس کا پوراپانی کڑوا ہو جائے ۔ کبھی وفورِ جذبات میں آدمی ایسی عاقبت نا اندیشی کا ارتکاب کرتاہے ، جس کے اثرات سمیٹے نہیں جا سکتے ۔ اسی لیے کہا جاتاہے زبان کا زخم تلوار کے زخم سے بھی گہرا ہوتاہے ۔ اپنی تمنائوں اور آرزوئوں کی پیروی میں آدمی جب بسر کرتاہے تو کسی وقت بھی ٹھوکر کھا سکتاہے ۔ جبلتوں کا غلام ہو جاتاہے ۔ ایک آزاد شہسوار کی طرح وہ حکم صادر نہیں کرتا بلکہ خواہشات اس پہ حکم لگاتی ہیں ۔ ’’ایک میری چاہت ہے اور ایک تیری تمنا ہے ۔ ہوگا وہی جو میری چاہت ہے ۔ پس اگر تو نے خود کو میری چاہت کے سپرد کر دیا تو تیری تمنا بھی پوری ہو جائے گی ۔اور اے ابنِ آدم اگر تو نے میری چاہت کی مخالفت اور مزاحمت کی تو میں تجھے تیری تمنا کی تلاش اور تعاقب میں تھکا دوں گا ۔ پھر وہی ہوگا ، جو مجھے پسند ہے ۔ ‘‘ یہ ایک قدسی حدیث کا مفہوم ہے ۔ یوں توقرآنِ کریم میں سرکارؐ کے بارے میں اللہ کا فرمان یہ ہے :وہ کوئی بات اپنی آرزو سے نہیں کہتے بلکہ صرف وہی ، جو ان پر اتارا جاتاہے ۔ حدیثِ قدسی وہ ہوتی ہے ، جس کے الفاظ بھی نازل ہوئے ہوں۔ پروردگار نے رحمتہ اللعالمینؐ کی قسم کھائی تو یہ فرمایا’’لعمرک ‘‘ قسم ہے ، تیری عمرِ عزیز کی ۔ یعنی اس کی ہر ساعت کی۔ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ؐ کے اخلاق کیسے تھے ۔’’ اخلاق ‘‘عربی لغت میں ایک جامع لفظ تھا۔ ایک شخصیت کی عادات، اندازِ فکر اور تیور یعنی کردار اور اس کی ترجیحات ۔جواب ملا : کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ اقبالؔ نے کہا تھا ۔ نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر وہی قرآں ، وہی فرقاں ، وہی یٰسیں ، وہی طٰہ اور یہ کہا تھا وہ دانائے سبلؐ ، ختم الرسل ؐ، مولائے کلؐ جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا کہا جاتا ہے کہ درد اور احساس کی شدت اس علمی مجدد پہ غالب تھی ۔ رسولِ اکرمؐ اور ان کی امت سے مفکر کی محبت اسے بے تاب کیے رکھتی ۔گمان کیا جاسکتاہے کہ فرطِ محبت میں وہ شاعرانہ مبالغے کے مرتکب ہو سکتے ہیں ۔ جی ہاں ، بالکل ہو سکتے ہیں مگر اور موضوعات میں ۔ زندگی کے دوسرے پہلوئوں اور تیوروں کو بیان کرتے ہوئے ۔ جہاں تک سرکارؐ کا تعلق ہے ، کوئی بھی صاحبِ ادراک و عرفان یہاں ٹھٹک کر رک جاتاہے ۔ کوئی بھی مسلمان ، جس میں اخلاص اور علم و عرفان کی ایک رمق بھی ہو ، آپؐ کے باب میں عدمِ احتیاط کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ فرمان یہ ہے کہ جس نے اللہ کے رسولؐ سے کوئی من گھڑت بات منسوب کی، وہ آگ میں ڈالا جائے گا۔ فارسی کے شاعر نے کہا تھا ادب گاہیست زیرآسماں از عرش نازک تر نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا دونوں کبار صوفیا میں سے ہیں ،دونوںاصحابِ صحو ، آخری درجے کے محتاط۔ بایزید ؒ وہ ہیں ، جو مدتوں تلاشِ حق میں سرگرداں رہے ۔ خود کہا تھا : چالیس برس تک میں نے خدا کو تلاش کیا ۔ جب میں نے اسے پایا تو دیکھا کہ وہ میرے انتظار میں ہے ۔ جنیدؒ وہ ہیں ، جنہیں سید الطائفہ کہا جاتاہے ، اولیا کا سردار ۔ ان نادر ہستیوں میں سے ایک ، اہلِ علم جن کے اقوال یاد رکھتے اور ان پہ غور کرتے رہتے ہیں ۔ ان کا قول یہ ہے : صحو کا ایک قطرہ سکر کے سمندر سے بڑھ کر ہے ۔ سرکارؐ کا راستہ ہوش و خرد اور حکمت و دانائی کا راستہ ہے ۔ وہ چیز ، جسے عشقِ رسولؐ کہا جاتاہے ، اس راز کو پالینے کی علامت ہے کہ آپؐ کی پیروی ہی صراطِ مستقیم کی پیروی ہے ۔ آپ ؐ کا اپنا ارشاد یہ ہے : عطا کرنے والا اللہ ہے اور تقسیم کرنے والا میں ہوں ۔ حدیث کے باب میں جو لوگ شکوک و شبہات اور مغالطے کا شکار ہوتے ہیں ، وہ بہت دور جا پڑتے ہیں ۔ قرآنِ کریم کو سمجھا نہیں جا سکتا ، جب تک سنت یعنی سیرت اور حدیث کا ادراک نہ ہو ۔ غلام احمد پرویز جیسے کتنے ہی لوگ کج فہمی کا شکار ہوئے اور خاک چاٹی ۔ ہمارے عہد میں بھی کئی چھوٹے چھوٹے غلام احمد پرویز پائے جاتے ہیں ۔ جرات نہیں رکھتے کہ صاف صاف انکار کریں مگر حدیث کے منکر ہیں ۔ اسی لیے گاہے شاعروں کی طرح خیالات کی وادیوں میں بھٹکتے ہیں ۔ کبھی کنکر کو ہیرا اور کبھی ہیرے کو کنکر سمجھ لیتے ہیں ۔ اقبالؔ کے اہم ترین اشعار میں سے ایک شاید یہ ہے گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغِ راہ ہے ، منزل نہیں ہے عقل ان کے نزدیک چراغ ہے ، نور ہے ۔ راستہ دکھاتی ہے مگر یہ بجائے خود منزل نہیں ۔ تنہا وہ خود منزل کا تعین بھی نہیں کرتی ۔اسی لیے تو اللہ نے پیغمبرؑ مبعوث کیے، کتابیں اتاریں ۔ کردار کے قندیلوں ایسے نمونے تخلیق کیے ۔ ارشاد کیا تھا : میرے اصحابؓ ستاروں کی مانند ہیں ، جس کی پیروی بھی کروگے، نجات پائو گے ۔ انسان کو ارادہ و اختیار بخشا گیا، فہم عطا کیا گیا ۔ ارشاد یہ ہوا کہ اچھے اور برے خیالات ہم نے تمہارے ذہن میں الہام کر دیے ہیں ۔ اب چاہو تو شکر کرو اور چاہو تو انکار ہی کر دو ۔اللہ کے آخری رسولؐ نے فرمایا تھا: تمام خرابیوں کی جڑ دنیا کی محبت ہے ۔ کہیں سے بات کہیں نکل جاتی ہے ۔ رمضان المبارک کے مقدس ایام میں ، جب سحر سے شام تک مقدس اقوال، احادیثِ رسولؐ اور آیات سنائی دیتی ہیں ، سیاست پہ بات کرنے کو جی نہیں چاہتا مگر کیا کیجیے کہ یہ ہمارے امتحانوں میں سے ایک امتحاں ہے ۔ آصف علی زرداری ، نواز شریف اور شہباز شریف جیسے لوگ ہم پہ مسلط کر دیے گئے ۔ عمران خان جیسے مدبرینِ کرام سے ہمیں واسطہ ہے ، جن کی مردم شناسی اور سیاسی فہم گاہے ایک سیاسی کارکن سے بھی کمتر ثابت ہوتاہے ۔ بے بسی کی کوئی حد ہے کہ ان عظیم رہنمائوں کے اقوالِ زریں پہ اخبار نویسوں کو بات کرنا پڑتی ہے ، ان پہ سوچنا پڑتا ہے ، ان کے عواقب و نتائج کا جائزہ لینا پڑتاہے ۔ کسی قوم سے خدا ناراض ہو تو یہی سزا اسے دیتا ہے ۔ صاف صاف بتا دیا گیا تھا کہ تمہارے اعمال ہی تمہارے حاکم ہوں گے ۔ ہمارے اعمال شہبا ز شریف ہیں ، حمزہ شہباز ہیں ، سلمان شہباز ہیں ، نواز شریف ہیں ، ان کی عالی قدر صاحبزادی ہیں ۔ آصف علی زرداری ، ان کی ہمشیرہ محترمہ اور ان کے فرزندِ گرامی ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ عمران خاں ہیں ، عزائم ہی عزائم اور باتیں ہی باتیں ۔ فکر و تدبر اور سوچ بچار کی فرصت ہی نہیں ۔ آرزو لیے پھرتی ہے ، ہوا بے تاب کرتی ہے ۔ وہ بات آصف علی زرداری نے کہی ، جس کا بوجھ یہ قوم نہیں اٹھا سکتی ۔ فرمایا کہ قیادت اب پاکستانی نیلسن منڈیلا کے صاحبزادے، قائدِ اعظم ثانی کی صاحبزادی اور حضرت مولانا فضل الرحمٰن کی ذریت کرے گی ۔ کیا کبھی یہ ایک قوم بنے گی یا ریوڑ ہی رہے گا ؟ اب یہ ہم پر ہے کہ قہرمانوں کی مان لیں ۔ بائیس کروڑ انسانوں کا ملک آئندہ نسلوں کے لیے بھی چراگاہ ہی بنا رہے یا اٹھ کھڑے ہوں ۔ ان کا فیصلہ ان کے منہ پر دے ماریں ۔