عبدالشکور صاحب کا کہنا ہے کہ صرف الخدمت فاؤنڈیشن یا چند اور فلاحی ادارے ہی متاثرین کی بحالی کا کام نہیں کرسکتے ، یہ کام ہمیں مل کر کرنا ہوگا۔ تباہی بہت بڑے پیمانے پر ہوئی ہے اب تک صرف 30 سے 35 فیصد متاثرین تک ہی ہم پہنچ پائے ہیں ابھی بے شمار ایسے متاثرین ہیں جن تک امداد نہیں پہنچ پائی۔ بیرون ملک سے بہت امداد آرہی ہے مگر سرکار اپنے تمام تر انفراسٹرکچر کے باوجود موثر طریقے سے متاثرین تک نہیں پہنچ پارہی۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟ "دیکھئے سرکار کے کاموں میں فیصلے کے لیے ایک مرکز ہے , پھر صوبہ ہے پھر بیوروکریسی آتی ہے۔ یہاں ضروری کاموں میں بھی بیوروکریٹک تاخیر ہوتی ہے جو کاموں کو سست روی کا شکار کر دیتی ہے۔ مثلا ایک فائل اوپر سے نیچے ایک افسر تک جاتی ہے کہ فلاں کام ہونا ہے پھر اس سے نیچے پہنچتی ہے آخر میں پھر ایک سوال اٹھتا ہے کہ یہ کام کس طرح سے کرنا ہے اس کے بعد پھر وہی عمل شروع ہوتا ہے جو تاخیر کا سبب بنتا ہے۔ فوری فیصلے نہیں ہوتے ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے فیصلے لندن اور امریکہ میں بیٹھے ہوئے لوگ کرتے ہیں جو زمینی حقائق سے آگاہی نہیں رکھتے۔ فیصلہ سازوں کی طرف سے جن متاثرین کے لیے فیصلے کیے جارہے ہیں وہ ان کی نفسیات اور شب وروز سے واقف نہیں۔ بلوچستان میں بہت زیادہ تباہی ہوئی اور دور دراز کے علاقوں کے گاؤں کے گاؤں ملیا میٹ ہو گئے جہاں پر پہنچنا کسی بھی ایک عام فلاحی تنظیم کے لیے ناممکن تھا اگر سرکاری طور پر مدد د نہ ملتی۔ بعض اوقات تاخیر کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہاں پہنچنے کے راستے صاف نہیں ہوتے مثلا ہم نے جھل مگسی پہنچنے کے لیے پانی اترنے کا انتظار کیا۔ بلوچستان میں پراونشل ڈیزاسڑ مینجمنٹ کا کردار بہت افسوس ناک رہا اس حوالے سے الخدمت کے چیئرمین عبدالشکور نے کہا کہ جب ہم نے پی ڈی ایم اے بلوچستان سے یہ کہا کہ آپ کے خیمے اور کشتیاں کہاں ہیں۔ جو ریسکیو کے کام کے لیے رکھی ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے وئیر ہاؤسز جہاں خیمے اور کشتیاں رکھے ہیں وہ اس وقت سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیںاس لیے ہم وہاں تک ہم نہیں پہنچ پائے۔"عبدالشکور صاحب میرے علم میں آیا کہ بلوچستان پی ڈی ایم اے کی کور کمانڈر کانفرنس نے فارن ڈونرز کے ساتھ ایک اعلی سطح کے اجلاس کا اہتمام کیا وزیر اعلی بلوچستان کے علاوہ ڈپٹی کمشنرز اور این جی اوز کے نمائندوں نے شرکت کی مگر۔اسں میں الخدمت کو نہیں بلایا گیا کیونکہ ان کی شرط یہ تھی کہ آپ اپنے امدادی سامان میں ہمیں شریک کریں ؟ 'جی کورکمانڈرکانفرنس میں ہمیں نہیں بلایا گیا ہم کسی اور کے ذریعے سامان تقسیم نہیں کرتے کیونکہ ہمارا اپنا سیٹ اپ ہے جو بہت فعال ہے پھر ہم اپنے ڈونرز کو جواب دہ ہیں یہ حساس معاملہ ہے ۔ باقی آرگنائزیشن جو یہ کرتی ہیں ان کے پاس نیٹ ورک نہیں ہوتا ۔جب کہ ہمیں ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے۔انہوں اگر ہمیں نہیں بلایا تو ہمیںاس سے کوئی پریشانی نہیں ہم اداروں کے ساتھ پورے تعاون اور کوآرڈینیشن کے ساتھ چلنے پر یقین رکھتے ہیں۔" نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اوراس کی پرونشل شاخیں جو ہر صوبے میں موجود ہیں ہیں ان کی کارکردگی تو اس وقت سب پر عیاں ہے آپ اس میدان عمل کے شناور ہیں آپ سمجھتے ہیں ان کی بنیادی خامی کیا ہے ؟ بنیادی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنا الگ سے کوئی نیٹ ورک نہیں بنایا جیسے 1122کا اپنا نیٹ ورک ہے وہ بھی سرکاری ادارہ ہے مگر بہت فعال ہے ۔ پروونشل ڈیزاڑ مینجمنٹ ضلعی سطح پر موجود ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے ہی کام کرتیہے۔ ظاہر ہے ان کی ذمہ داری کئی طرح کے انتظامی معاملات ہوتے ہیں تو وہ اس طرح سے کام نہیں کر سکتے اس پر اگر پولیٹکل ٹرمائل بھی ہو تو معاملات خراب ہوجاتے ہیں۔ آخر میں عبدالشکور صاحب نے بہت اہم بات کی انہوں نے کہا کہ میں نے ایک سیمینار میں مشورہ دیا ہے کہ حکومت کے پاس جو امداد آرہی ہیں اس کو شفاف طریقے سے متاثرین تک پہنچانے کے لیے ایک نظام وضع کیا جائے۔ نان پارٹیزن ایک ادارہ بنائیں جس کے ممبر ریٹائرڈ جج، جرنلز ، یونیورسٹیوں کے استاد پروفیسر اور سول سوسائٹی کے افراد ہوں اور وہ اپنی مانیٹرنگ ٹیموں کے ساتھ فنڈز کے کے استعمال کی شفافیت کا جائزہ لیں اور حکومت کا ایک اپنا سسٹم ہو اس سے لوگوں کا اعتبار بھی قائم ہوگا اور حکومت کی عزت میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس طرح کروڑوں متاثرین تک امداد پہنچانے کا ایک قابل اعتماد بہتر سسٹم بن سکے گا۔ میں ان شاء اللہ چند دنوں میں باقاعدہ طور پر بھی یہ تجویز حکومت کو دوں گا۔ عبدالشکور صاحب کی ذاتی زندگی پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنی بساط کے مطابق اس قرض کو ادا کرنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے جو ایک صاحب درد انسان دوسرے انسانوں کے لئے محسوس کرتا ہے۔ زمانہ طالب علمی میں سیاست سے بھی شغف رہا پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے صدر منتخب ہوئے۔مزید تعلیم کے لئے امریکہ چلے گئے جہاں سے بزنس میں اعلی تعلیم حاصل کی، واپس آئے تو اپنے شہر کھاریاں کے قصبے چنن میں وزڈم سکول کے نام سے بچیوں کا ایک سکول بنایا۔آس پاس کے دیہات کی ہزاروں لڑکیوں کے لیے سکول آنے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کا ایک معیاری نیٹ ورک بنایا۔ کم وسیلہ مگر قابل اور ذہین طلباء و طالبات کی اعلی تعلیم کے لیے الفلاح سکالرشپ پروگرام شروع کیا۔الخدمت کے آرفن کئیر پروگرام میں وہ اپنی جیب سے پانچ یتیم بچوں کے تمام اخراجات اٹھاتے ہیں۔ (یہ معلومات مجھے ان کے قریبی ساتھی سے ملیں) 2011 ء میں انہوں نے جماعت اسلامی کی الخدمت فاؤنڈیشن کو بطور چیئرمین جوائن کیا ۔پاکستانیوں کی خوش قسمتی ہے کہ الخدمت فاؤنڈیشن کو جناب عبدالشکور صاحب جیسے حوصلہ مند، اور غیر معمولی طور پر مثبت سوچ رکھنے والے صاحب درد شخصیت کی سر پرستی ملی۔ اوپن ہارٹ سرجری 70 سال سے زائد عمر کے باوجود ملک کے طول عرض میں وہ خود الخدمت کے کاموں کی نگرانی کر رہے ہیں۔الخدمت کے چیئرمین جناب عبد الشکور صاحب دیانت اور انٹیگریٹی کے ساتھ آندھیوں میں چراغ جلانے کا یہ جذبہ الخدمت کے پچاس ہزار سے جانثار رضاکاروں میں منتقل کررہے ہیں پاکستان میں کرپشن سے آلودہ ، مفاد پرست ماحول میں یہ منظر کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔(ختم شد)