غیر منظم سماج کا چہرہ دیکھنا ہو تو اپنے معاشرے کو دیکھ لیں کاموں کو جس ہبڑ دھبڑ طریقوں سے سرانجام دیا جاتا ہے اس کے نتائج بھی سب کے سامنے ہیں۔ سرکاری فائلیں بھرنے کرنے کے لیے بغیر کسی طے شدہ پروگرام کے کام کا آغاز ہو جاتا ہے۔سرکار ہی پر موقوف نہیں ایک عام پاکستانی بھی کسی پلاننگ اور کسی ترتیب پر کم ہی یقین رکھتا ہے یہ رمز اس نے سیکھا ہی نہیں کہ کہ کام چھوٹا ہو یا بڑا نظم اور ترتیب کے سانچے میں ڈھل کر ہی نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ اور کام اگر ہو کرڑوں سیلاب متاثرین تک ضرورت کی امدادی اشیا پہنچانے کا ان کے گوناگوں مسائل کو ترتیب وار حل کرنے کا انہیں قدم بہ قدم بحالی کی طرف واپس لانے کا تو اس میں بہت اعلی سطح کی باریک بین پلاننگ ہوتی ہے۔اس کا اندازہ مجھے الخدمت کے چیرمین محترم عبدالشکور صاحب سے بات چیت کے بعد ہوا۔آس پاس خبریں آ رہی تھیں کہ متاثرین کے لیے امدادی سامان لے جانے والے ٹرکوں لوٹا جا رہا۔ یا پھر تقسیم کا طریقہ اتنا غیر منظم ہے کہ صحیح مستحقین تک نہیں پہنچ پاتا ۔ اس وقت سیلاب متاثرین کیلئے امدادی کاموں کو متاثرین تک پہنچانے کے اس وسیع وعریض کام کی سالار کارواں الخدمت فاؤنڈیشن ہے۔ میری خواہش تھی کہ الخدمت کے چیئرمین عبدالشکور صاحب سے خود سوالات کر کے یہ معلوم کروں کہ ان کی اس غیر معمولی کامیابی کا راز کیا ہے بن کہ وہ بکھراؤ اور انتشار کے اس ماحول میں اتنے یکسو ہوکر اپنا کام کیے جاتے ہیں۔ الخدمت کے چیئرمین بڑی ہی مصروف شخصیت ہیں ،میں ان کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے وقت دیا۔جب میں نے کال کی تو اس وقت بھی وہ سفر میں تھے اور غالباََ سندھ کی طرف جا رہے تھے اس سے پہلے انہوں نے بلوچستان کے دور دراز علاقوں کا دورہ کیا تھا۔کیا آپ کے ساتھ بھی کبھی ایسا واقعہ آیا کہ امدادی سامان غیر مستحق جتھوں نے لوٹ لیا ہو؟ ’’جن احباب کے ساتھ ایسا ہوا ان کے اخلاص میں یقینا کوئی کمی نہیں تھی لیکن اس کام کے لیے ان کی مکمل تیاری نہیں تھی یہ بہت ٹیکنیکل کام ہے۔الحمدللہ ہمارے کسی ٹرک یا وین کے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا۔ہم پہلے آپ ہوم ورک مکمل کرتے ہیں۔ زمینی حقائق پر نظر رکھتے ہیں اور اس حساب سے تبدیلی کرتے رہتے ہیں۔کوئی بھی کام ہو منظم طریقے سے کیے بغیر انجام نہیں پا سکتا ہم جہاں جاتے ہیں اس حوالے سے تمام معلومات پہلے سے حاصل کر لیتے ہیں۔پچھلے دونوں ہم نے اندرون سندھ مہیڑ جانا تھا ہمیں معلوم تھا کہ ہم نے وہاں کشتیوں کے ذریعے جانا ہے اور ہمیں کتنی کشتیاں درکار ہوں پھر لائف جیکٹس کی ضرورت ہے اس کی پوری تیاری پہلے سے کی گئی تھی۔ امدادی سامان کی تقسیم کا معاملہ ہو تو متاثرین میں ایک ہلچل ضرور مچتی ہے لیکن ہمارا ایک طریقہ کار ہے سامان بڑی ترتیب کے ساتھ اتارا جاتا ہے ہر کام کے لیے رضا کار مخصوص ہوتے ہیں۔ پھر متاثرین کے شناختی کارڈ لے ان کی فہرستیں بنتی ہیں تاکہ لوگ دوبارہ سے آکر سامان نہ لیں اور کوئی حقدار رہ نہ جائے۔ہمارے رضاکار بڑی محنت سے یہ سب کام کرتے ہیں۔ بعض اوقات ہوتا ہے کہ لوگ دوسری بار بھی سامان لینے آجاتے ہیں کیونکہ متاثرین میں عدم تحفظ کا احساس بہت گہرا ہوتا ہے وہ کل کی فکر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ لیکن ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہم وہاں موجود تمام لوگوں کو امدادی سامان پہنچا ئیں اور کوئی ڈپلیکیشن نہ ہو۔ الخدمت کی اصل طاقت ہمارے پچاس ہزار ورکرز ہیں۔جو اپنے کام میں بہت جان مارتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تربیت یافتہ رضاکار کی ہیں بعض ایسے رضاکار ہیں جنہیں ہم ہنگامی حالات میں بلا لیتے ہیں۔ ہر شہر میں مقامی طور پر بھی الخدمت کا نیٹ ورک موجود ہے جس کا ہمیں بہت فائدہ ہوتا ہے۔ کتنے افراد تک کیا سامان پہنچانا ہے اس کا مکمل ہوم ورک کیا ہوتا ہے بعض اوقات ہمارے اندازے غلط بھی ثابت ہوتے ہیں تو موقع پر ہم اپنی پلاننگ میں تبدیلی کرکے نئی چیزوں کو شامل کرتے رہتے ہیں۔مثلا ابھی ہم نے اندرون سندھ کے لیے کراچی سے پچاس ہزار مچھردانیاں خریدی تھی جب ہماری ٹیم وہاں پہنچی تو معلوم ہوا کہ مچھردانیاں زیادہ تعداد میں چاہیں پھر میں نے کہا کہ فوری طور پر مزید مچھر دانیاں لاہور سے خریدیں اگرچہ مہنگی تھیں مگر ہم نے خرید کر سند ھ اور بلوچستان کے متاثرین تک پہنچائیں، موقع پر اس طرح کے فوری فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ہم جو کام کرتے ہیں اس کے زمینی حقائق سے واقف ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسی حساب سے پروگرام میں تبدیلی کرتے رہتے ہیں۔ متاثرین کے لیے پینے کے صاف پانی کی دستیابی بنیادی مسئلہ ہے۔الخدمت نے پہلے یہی سوچا تھا کہ فلٹریشن پلانٹ لگائیں گے اور متاثرین اپنی ضرورت کے مطابق پانی بھر لیں گے مگر وہاں جا کر اندازہ ہوا کہ تمام متاثرین ایک جگہ پر موجود نہیں ہے مثلا پانچ ہزار لوگ ہیں تو اپنے خاندانوں کے ساتھ سکیٹرڈ ہیں۔ ہم نے اس صورتحال میں موبائل فلٹریشن پلانٹ تیار کیے جو متاثرین کے پاس خود جاتے ہیں اور وہ ضرورت کے مطابق اپنی بوتلیں اور کین کے ڈبے بھر لیتے ہیںمیڈیکل کیمپ کے حوالے سے بھی یہی مسئلہ سامنے آیا۔ ایک میڈیکل کیمپ میں تمام لوگ نہیں آسکتے تو ہم نے موبائل میڈیکل یونٹ بنائے ہیں جس میں ہمارے ڈاکٹرز مریضوں کے چیک اپ کے لیے دوائیں لے کر خود متاثرین کے پاس جاتے ہیں۔متاثرین میں ہزاروں عورتیں ایسی ہیں جو اگلے چند ہفتوں میں بچوں کو جنم دینے والی ہے اس حوالے سے بھی ہم نے اسٹڈی کی تب معلوم ہوا کہ یہ خواتین جس ماحول کی پروردہ ہیں وہ شہر کے اسپتالوں کے میں جاکر ڈیلیوری سے گریزاں ہیں اس کا حل یوں نکالا کہ بچے کی ڈیلیوری کے لیے ہم نے ہائے جینک کٹس تیار کیں ہیں۔جس میں زچگی کے لیے ضرورت کا تمام سامان موجود ہے۔" ایک سوال کے جواب میں چیئر مین الخدمت نے کہا کہ ہمارا سب کام شفافیت کے دائرے میں ہوتا ہے۔ " وٹس ایپ گروپس کے ذریعے اپنے پورے نیٹ ورک پر نظر رکھی جاتی ہے ملک کے ہر کونے سے الخدمت کے تمام کاموں کی تفصیل ان گروپوں میں۔ شئیر کی جاتی ہے۔ موقع پر فوری فیصلے بھی انہی وٹس ایپ گروپوں میں ہوتے ہیں۔ (جاری)