لندن(نیٹ نیوز)سانحہ اے پی ایس میں بچ جانیوالے 16سالہ طالبعلم ولید خان سانحہ سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سانحہ اے پی ایس میں چہرے پر چھ گولیاں لگیں مگر بچ گیا ،یہ سانحہ ابھی تک نہیں بھولا۔جب میں نے برمنگھم میں سکول میں داخلہ لیا تو میرے ساتھی طالب علم پوچھتے تھے آپکا تعلق کہاں سے ہے ،آپکے چہرے کو کیا ہوا؟۔ پاکستان میں میرے ساتھ جو ہوا تھا میں اس کو چھپا نہیں سکتا تھا۔جب روزانہ میں آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتا تو میرے ساتھ پیش آیا واقعہ میرے ذہن میں گھوم جاتا۔مجھے یہ کافی مشکل لگتا تھا کہ ہر کسی کو انفرادی طور پر بار بار بتاتا کہ میرے چہرے پر نشانات کیوں ہیں اور یہ کیسے بنے ۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ ایک ہی مرتبہ سب کو اپنی کہانی بیان کر دوں۔ اس مقصد کیلئے سکول انتظامیہ نے میرے لیے سب کو ایک جگہ اکٹھا ہونے کا کہا،سارا واقعہ بیان کرنے کے بعد میں جب میں نے اپنی نگاہیں اٹھائیں تو کئی طالب علموں کی آنکھوں میں آنسو دیکھے ،میرے اساتذہ نے مجھے بتایا کہ انہوں نے طالب علموں کو کبھی اتنا خاموش نہیں دیکھا جتنا وہ میرے گفتگو کے دوران تھے ۔ میرے ساتھ جو کچھ ہوا تھا اس کو دوبارہ یاد کرنا بہت تکلیف دہ تھا۔دہشتگرد مجھ سے صرف 10 میٹر کے فاصلے پر تھا جب اس نے مجھے چہرے پر پہلی گولی ماری، میں رینگ رینگ کر کوشش کر رہا تھا کہ کرسیوں کے پیچھے پناہ لے سکوں۔ اسی وقت ایک دہشت گرد نے مجھے حرکت کرتا دیکھ کر میرے چہرے پر کئی گولیاں برسائیں۔ مجھے گنتی بھول گئی کہ کتنی گولیاں ماری گئیں،جب مجھے ایمرجنسی روم میں لایا گیا تو مجھے زخمیوں کے بجائے لاشوں میں ڈال دیا گیا۔مجھے چہرے پر چھ جبکہ ٹانگ اور ہاتھ پر ایک ایک گولی ماری گئی تھی، میں نے کئی مرتبہ اپنے آپ کو خود کشی کرنے کے دہانے پر پایا، جب حملے کے دو سال بعد ہم آپریشن کے لیے برطانیہ آئے تو میں اور میرے والد یہاں کسی کو نہیں جانتے تھے ۔اب میں برمنگھم میں او لیول کے امتحان کی تیاری کر رہا ہوں، میں برطانیہ کی یوتھ پارلیمنٹ کا ممبر بھی ہوں،میں صرف اپنے لیے نہیں جینا چاہتا بلکہ ان تمام بچوں کے لیے جینا چاہتا ہوں جو اس دن ہوئے حملے یا دیگر حملوں میں جاں بحق ہوئے ۔