بعض لکھنے والے اس لئے لکھتے ہیں کہ وہ لکھنا جانتے ہیں۔بعض اس لئے لکھتے ہیں کہ وہ لکھنا چاہتے ہیں۔بعض ان دونوںکی دیکھا دیکھی لکھتے ہیں،لکھتے رہتے ہیں اور عموما ان دونوں سے آگے نکل جاتے ہیں۔ پہلی قسم کے لوگ جینوئن لوگ ہو تے ہیں۔ انہیں جو فطری صلاحیت قدرت نے ودیعت کی ہوتی ہے ، وہ اس کا مناسب استعمال کرتے ہیں۔انہیںاس بات کا پورا احساس ہوتا ہے کہ اگر کوئی صلاحیت استعمال نہ کی جائے تو وہ رفتہ رفتہ روٹھ جاتی ہے۔ جیسے ڈارون کے مقلدین کا خیال ہے کہ حضرت انسان نے چونکہ دم کا خاطر خواہ استعمال چھوڑ دیا اس لئے دم نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اکیلی دم کہاں تک ساتھ نبھاتی درحالانکہ تجربہ بتاتا ہے کہ چیزیں کثرت استعمال سے گھستی اور ختم ہوجاتی ہیں ۔ بعض لوگ اسی خدشے کے پیش نظر دماغ استعمال نہیں کرتے۔مرشدی یوسفی کے بقول بعضے جانوروں کو دم اس لئے دی گئی کہ ان کی ستر پوشی ہو سکے اور بعضے کو اس لئے کہ غریب کے پاس دبا کے بھاگنے کے لئے کچھ تو ہو۔ چناچہ انسان نے جب دبا کے بھاگنے کے لئے لنگوٹ ایجاد کرلیا تو دم کو اپنا وجود بالکل بے معنی محسوس ہوا اور اس نے حضرت انسان کو بوجھل دل سے الوداع کہا۔ خدا جانے وہ پہلا بچہ جو بغیر دم کے اس دنیائے فانی میں وارد ہوا ہوگا اس کی زچہ پہ کیا گزری ہوگی۔شاید اس نے تاسف سے کہا ہو کہ انیس دُم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جائو۔بات ہورہی تھی ان جینوئن لوگوں کی جو اس لحاظ سے خوش قسمت ہوتے ہیں کہ قدرت نے انہیں لکھنے کی صلاحیت عطا کی ہوتی ہے اور اتنے سمجھدار ہوتے ہیں کہ اس صلاحیت کا استعمال بھی کرتے ہیں تاکہ نعمت خداوندی کے متشکر ہوں۔ایسے لوگ ادیب ، شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار یا ڈرامہ نگار بن جاتے ہیں۔ جو ان میں سے کچھ نہیں بن سکتے وہ نقاد اور کالم نگار بن کر ان سب کا جینا حرام کرتے ہیں اور کامیاب رہتے ہیں۔متذکرہ بالا ہر کوئی ان کی عزت اس لئے کرتا ہے کہ اگلے کالم یا تنقیدی مضمون میں ان کے ادب پارے کے چیتھڑے نہ اڑا دئیے جائیں۔ اس اکھاڑ پچھاڑ اور چتھاڑ سے بچنے کے لئے حفظ ماتقدم کے طور پہ نقاد کے ساتھ کتنے ہی اچھے تعلقات رکھے جائیں وہ خدائی خوار کبھی تنقید سے باز نہیں آتا کیونکہ خدا نے اسے تنقید کی فطری صلاحیت دی ہوتی ہے جس کا کماحقہ استعمال کرکے وہ اللہ کا شکرگزار بندہ بننا چاہتا ہے اور اس کی شکرگزاری میں اڑچنگ ڈالنا کار مومن نہیں ہوسکتا ۔ چناچہ نہ ادیب اور شاعر باز آتے ہیں نہ نقاد۔یوں دونوں کی دال روٹی چلتی رہتی ہے ۔ رہ گیا قاری تو وہ ان تینوں کے درمیان کسی کنفیوژڈ پنڈولم کی طرح ڈولتا اور اس اسکول ماسٹر کی جان کو روتا ہے جس نے پیپل کی چھائوں تلے ٹاٹ پہ بیٹھ کر ان دونوں کو لکھنا اور اس کو پڑھنا سکھایا۔کالم نگار البتہ کسی اور مشکل میں ہوتا ہے۔ نقاد کو تو آسان شکار سامنے ہی نظر آجاتا ہے، کالم نگار کو قلم کاندھے پہ دھر، ایک ایک ٹیلہ اور جھاڑی ٹٹولنا پڑتا ہے ۔جہاں شکار کی جھلک دکھائی پڑے،وہ فورا ہی حملہ آور نہیں ہوجاتا بلکہ اسے گھیر گھار کر یوں کہیں کہ ہانکا کرکے کسی گھاگ شکاری کی طرح اپنی رینج میں لاتا ہے،دیر تک اس سے ٹھٹھول کرتا ہے پھر کہیں جاکر اسے پچھاڑتا اور اس پہ ایک ٹانگ رکھ کے کھڑا ہوکر تصویر بنواتا ہے۔ جینوئن کالم نگار روز ایک نیا شکار ڈھونڈھتا اور اس کے ساتھ یہی کھیل کرتا ہے جو ذرا ثقہ قسم کے حاذق کالم نگار ہیں،جن کا تجربہ ہماری عمر سے دگنا ہے وہ شکار کو مارتے نہیں بس ادھ موا چھوڑ دیتے ہیں تاکہ اگلے ہفتے اس کے ساتھ یہی کھیل کیا جاسکے اور اس کے نیم مردہ پہلو میں قلم چبھو کر اپنا ، کالم کا اور قاری کا پیٹ بیک وقت بھرا جاسکے۔ہم جیسے نوآموز اور ناپختہ کالم نگار پہلی ہی بار شکار کوگھیر گھار ایک ہی ہلے میں نہ صرف مار ڈالتے ہیں بلکہ اس کی کھال کسی مذہبی جماعت کو صدقہ کرکے اور گوشت ہڈیاں مستحقین میں تقسیم کرکے خود ہاتھ جھاڑ کر مچان پہ ٹھڈی کے نیچے ہتھیلی دھر کر بیٹھ جاتے اور سوچتے ہیں اب کیا لکھیں۔وہ جو نہایت چابکدستی سے ایک ہی موضوع پہ بار بار لکھنے کی خداداد صلاحیت رکھتے ہیں، وہ لکھنے والوں کی پہلی قسم سے تعلق رکھتے ہیں جو اس لئے لکھتے ہیں کیونکہ وہ لکھنا جانتے ہیں۔یہ موضوع کو مرنے نہیں دیتے ۔ ہاں وہ قریب المرگ ہوجائے تو اسے آکسیجن ماسک لگا کر کسی آئی سی یو میں داخل کردیتے ہیں۔ جب لکھنے کو کچھ نہیں ہوتا تو یہی پس خوردہ موضوع برے وقت میں کام آتا ہے جس میں تب تک جان پڑ چکی ہوتی ہے۔یہ ایسے ہنرور ہیں کہ موضوع فوت بھی ہوجائے تو دو چار کالم بآسانی پھڑکا سکتے ہیں۔ اردو زبان میں یہ سہولت ہر نیٹ ورک پہ دستیاب ہے۔ایسے ہی ایک معروف اور صاحب اسلوب اور بلاشبہ کامیاب کالم نگار کے متعلق میرا خیال ہے کہ وہ چیونٹی پہ بھی کالم لکھ سکتے ہیں اور اپنے زور قلم سے اس چیونٹی کا شجرہ نسب اس چیونٹی سے ملا سکتے ہیں جس نے حضرت سلیمان کے لشکر جرار کو آتا دیکھ کر کہا تھا: اندر ہوجائو ورنہ سلیمان کا لشکر تمہیں کچل ڈالے گا اور قاری کو نہ چاہتے ہوئے بھی ان کا یقین کرنا پڑے گا۔سنت سلیمانی کی اقتدا میں ہنس کر ہی سہی۔ ایک اور صاحب آپ کو انقلاب فرانس کی خونریز داستان یوں سنائیں گے جیسے گلوٹین پہ ہاتھ دھرے وہی بیٹھے ہوں۔ انہیں یہ غم کھائے جاتا ہے کہ آخر وطن عزیز نے ایسا کیا قصور کیا ہے کہ یہاں انقلاب فرانس نہیں آتا۔ یہ کون بدبخت ہیں جو پچھلے دس سالوں سے ہر بار الیکشن وقت پہ کرواکے ان کی امیدوں اور خوابوں پہ ووٹ کی کالک مل دیتے ہیں۔ایک اور نہایت صاحب طرز اور منجھے ہوئے کالم نگار کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اپنا کالم جن فقروں سے شروع کرتے ہیں،درمیان میں قاری کو گھما کر واپس وہیں لے آتے اور اسی پیراگراف پہ ختم کرتے ہیں۔یا للعجب!ایسا ہنر بھی کم ہی دیکھا۔ یا تو عہد اموی میں خلیفہ مامون کے دور میں ایسے ہنرور تھے گرچہ کمیاب تھے، مگر وہ تھے یا اب عہد عمرانی میں وہ ہونگے اور ہما شما کسی شمار میں نہ ہونگے۔عجائبات ہیں زمانے کے۔الحذر الحذر! یہ کامیاب و کامران لوگ ہیں۔ انہیں یہ سہولت بھی میسر ہے کہ یہ جہاندیدہ،مردم گزیدہ لوگ ہیں۔ یہ اپنی یادداشت اور مجلس رفتہ جو انہیں ہر دور میں ایک دوسرے ہی نہیں تیسرے کی بھی حاصل رہی، کے زور پہ اتنا کچھ لکھ سکتے ہیں جس کے لیے ہم جیسے کالم نگاروں کو کتابیں پڑھنی پڑتی ہیں۔ مشاہدے کی کمی مطالعے سے ہی پوری کی جاسکتی ہے۔عمر تجربے کا متبادل نہیں ہوسکتی البتہ مطالعہ ہوسکتا ہے۔ چونکہ ہمارا تعلق لکھنے والوں کے دوسرے قبیل سے ہے جو اس لئے لکھتے ہیں کیونکہ وہ لکھنا چاہتے ہیں،لکھنا جانتے نہیں لہٰذا ہمیں اپنی چاہت کی تکمیل کے لئے دوہری محنت کرنی پڑتی ہے۔اس المیے کی ایک وجہ جہاں ناپختگی ہے وہیں یہ بھی کہ مجھے ایک ہی بات کو کئی رنگ سے کہنا اور ایک موضوع کو کئی ڈھنگ سے باندھنا نہیں آتا۔ مختصر نویسی ایک فن ہے اور جامع الفاظ اس فن کے اوزار ہیں۔ جب ایک بات کم سے کم الفاظ میں لکھی اور کہی جاسکتی ہے تو اس کے لئے صفحات کالے کرکے اگلے کاوقت برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ پیدائش کے حادثے کی وجہ سے میرا تعلق اس قوم سے ہے جو محبت کے اظہار کے لئے آئی لو یو جیسے جامع اور مختصر فقرے کی جگہ دو غزلوں اور سہ غزلوں پہ یقین رکھتی ہے اور جب تک چاند ستارے توڑ لانے کے بلند وبانگ دعوے نہ کیے جائیں ، مخاطب کو یقین ہی نہیں آتا اور وہ دل میں کہتا ہے ہو نہ ہو ضرور کوئی گل کھلائے گا حالانکہ گل وہ پھر بھی کھلا کر رہتا ہے۔ایک مسئلہ اور بھی ہے ، بین الاقوامی سیاست و تعلقات جو میرا موضوع ہیں، کسی خوش خیالی اور لفاظی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ان پہ بزبان انگریز ی اتنا اور متنوع مواد موجود ہے کہ اس کی گنجائش بھی نہیں ہوتی۔بعض اوقات ایک کالم کے لئے پندرہ بیس رپورتاژ پڑھنے پڑتے ہیں۔چونکہ عالمی میڈیا کسی نہ کسی کے ایجنڈے پہ ہوتا ہے اس لئے اصل بات جاننے کے لئے ایک ایک خبر کو کئی ذرائع سے جانچنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر گوہر مقصود حاصل ہوتا ہے۔مجھ سے میرے نوجوان ساتھی اکثر پوچھتے ہیں کہ کالم کیسے لکھا جاتا ہے تو اس کے لئے انہیں ان سے رجوع کرنا چاہئے جو لکھنا جانتے ہیں۔ مجھ سے پوچھیں گے تو انہیں بھی میری طرح ٹھڈی کے نیچے ہتھیلی دھر کر بیٹھنا پڑے گا کیونکہ میں نے اکثر شکار کو پہلے ہی ہلے میں جہنم رسید کردیا ہوتا ہے۔اب تن مردہ میں جان وہ ڈالے جس نے اس کا دعوی کیا ہو یا وعدہ۔اپنے بس کی تو یہ بات نہیں۔