ترکی سے درآمد ہونے والے ’’ارطغل‘‘ نے مرچوں کا بھاؤ بڑھا دیا ہے وہ سیکولر ،لبرل دوست جو سر پر ترچھی سرخ ٹوپی جمائے گول گلے کی چی گویرا والی ٹی شرٹ پہنے مسلمانوں پر انتہا پسندی کی پھبتیاںکستے نہیں تھکتے وہ انتہاکی فصیل پر آستینیں چڑھائے کھڑے دکھائی دے رہے ہیں ، ایک ترک ڈرامے نے ان کی تیوریوں پر بل ڈال دیئے ہیں وہ باؤلے ہوئے پھر رہے ہیں کسی ’’چی گویرا‘‘ کے مرید کو اس میں میں کشت وخون نظر آرہا ہے او ر کسی کو ثقافت کی عزت تار تا ر ہونے کا خطرہ دکھائی دے رہا ہے،ایک جانب سے غصے میں بھری آواز آتی ہے کہ ہم پر ترک ثقافت کیوں مسلط کی جارہی ہے اور دوسری آواز کہتی ہے ارطغل سے ہمار اکیا لینا دیناجس خلافت پر ترکوں نے توپ قاپی کے عجائب گھر میں ٹکٹ لگا دیا ہے ہم اس پر بنے ڈرامے کو صرف آنکھوں سے نہیں بلکہ دل کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ،ارطغل پر مرچیں چبانے والوں کے پاس اک بڑی دلیل ترک ثقافت کی یلغار کی ہے پتہ نہیں ’’محتشم صدی‘‘ جسے ’’میراسلطان ‘‘ کے نام سے دکھایا گیا تو اس وقت چی گویرا کے یہ مرید کہاں کن مشاغل میں مصروف تھے کہ انہیں کہیں سے کسی سازش کی بو آئی نہ ثقافت پرکسی خطرے کو پھن اٹھائے دیکھا وہ اس ’’میراسلطان ‘‘سے لطف اندوز ہوتے رہے جسے ترک وزیر اعظم طیب اردوان نے بکواس قرار دیا ان کے خیال میں اس ڈرامے میں ترک ہیرو سلطان سلیمان کی توہین کی گئی تھی یقینی طور پر یہ توہین لبرل سیکولر طبقے کی تسکین کا ذریعہ بن رہی تھی اس لئے راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا ترکوں نے پاکستان کانام 1947ء کو سنا لیکن وہ اس دھرتی پر موجود اپنے محسنوں سے 1897ء میں اس وقت متعارف ہوا جب یونان نے ترکوں کو للکاراتھا،اسکے بعد1912ء کی جنگ بلقان میںبھی برصغیر میں خلافت کے چاہنے والوں نے ترک بھائیوں کی بھرپور مدد کی ہماری ماؤں بہنوں نے اپنے طلائی زیوارت اتار اتارکر چندے میں دیئے اسکے بعد یہاں چلنے والی تحریک خلافت کی الگ ہی تاریخ ہے،ترک اس ایثار سے واقف ہیں او ر سینے پر ہاتھ رکھ کر تسلیم بھی کرتے ہیں پاکستانیوں کو’’ کاردیش‘‘یعنی بھائی کہتے ہیں ایسی محبت کی فضا میں ’’ارطغل ‘‘ نے یہاں مقبولیت کے جھنڈے تو گاڑنے ہی تھے، ارطغل اردو زبان میںکیا دکھایاجانے لگا ہر طرف ارطغل ارطغل ہونے لگا،جلد ہی یہ غیر مانوس سا لفظ اپنا اپنا سالگنے لگا پاکستان اور ترک ایک دوسرے کے لئے محبت اور اخوت کے ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں ترکوں سے ہمارا دین کا اٹوٹ رشتہ ہے اور پھر ترکی امت مسلمہ کے شاندار ماضی کا گواہ بھی تو ہے ، یہاں سے مسلمانوں نے 1299ء سے 1922ء تک آسٹریااور یوکرین سے سوڈان اور صومالیہ تک تین براعظموں پر راج کیا مسلمانوں کے عروج کی یہ تمثیلی گواہی ’’ارطغل غازی‘‘ دے رہا ہے اس تاریخی ڈرامے نے پوری قوم کو اپنے سحر میں لے رکھا ہے ، ترک سرکار بھی کہہ رہی ہے کہ ا رطغل غازی کی پاکستان میں مقبولیت نے ترکی کو بھی پیچھے چھوڑ دیاہے اس مقبولیت نے لبرلز سیکولر طبقے کو جو ڈرامہ تھیٹر اور قص کو ثقافت کا کلمہ کہتے ہیں ان ہی سے یہ ڈرامہ ہضم نہیں ہورہاوہ جابجا قے کرتے پھر رہے ہیں۔ جبران ناصر کراچی کے متحرک نوجوانوں میں سے ہے بائیں بازو سے تعلق رکھتا ہے کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس کلفٹن کی لبرل لابی میں خاصا جانا مانا جاتا ہے عورت مارچ میں گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں کو گھیرگھار کر مظاہرے میں لانے والی متمول مستورات جبران کے آس پاس ہی دکھائی دیتی ہیںآپ کہہ سکتے ہیں کہ جبران ناصر کراچی کے پوش علاقوں کے ’’روشن خیال‘‘ لبرلز کا ترجمان ہے ،کھلتی ہوئی گندمی رنگت او رترشی ہوئی داڑھی والا جبران ناصر سلیقے سے بات کرنے والا نوجوان ہے کم از کم میں نے تو اسے مہذب انداز میں اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھا ہے لیکن ارطغل دیکھ کر جبران ناصر کی سمجھ بوجھ بھی کسی بھینس کی طرح پانی میں اتر گئی،جبران ناصر نے ٹوئٹ ٹھوک کر بحث چھیڑ دی کہ ہمارے پاس بہت سی ثقافتیں شناخت سے محروم ہیں ہمیں اپنی اصلیت کو نہیں بھولنا چاہئے ،اصلیت کی تلاش میں ہم کبھی ’’گورے ‘‘ بن جاتے ہیں کبھی ہم اپنی شناخت بھارتیوں میں کھوجتے ہیں ،کبھی ہم بن قاسم سے اپنی جڑیں ملاتے ہیں اور کبھی عرب بننے کی کوشش کرتے ہیں اب ہم ترک بننے کی کوشش کر رہے ہیں ‘‘۔ قوم کو اپنی ثقافت کی یاد دلانے کے لئے جبران نے اپنی زبان کے بجائے انہی انگریزوں کی زبان کی استعمال کی جسے انہوں نے طنزا گورے قرار دیا تھاپیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ کو بھی ارطغل اچھا نہیں لگاوہ بھی اسکی مخالفت کرتی پھر رہی ہیں انکا کہناہے کہ پی ٹی وی ترکی کے قرون وسطی کے جنگجوؤں کی شان بیان کرنے کے بجائے مقامی تاریخ کو فروغ دے نفیسہ شاہ صاحبہ کے علاوہ اور بھی لوگ ہیں جن کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں میں حیران ہوں کہ اس وقت جبران ناصر اور نفیسہ شاہ صاحبہ کہاں مصروف تھیں جب ’’میرا سلطان ‘‘ جیسا ڈرامہ یہاں چل رہا تھا اس وقت بھی ان کا کوئی احتجاج کہیں ریکارڈ پر نہیں ملتا جب پاکستان میں کیبل کے ذریعے بھارتی کلچر گھر گھر پہنچایا جارہا تھا،ہمارے بچے ٹیلی وژن اسکرین سے چپک کر’’ تارک مہتا کا الٹا چشمہ‘‘ اور’’ چڑیا گھر ‘‘ دیکھتے تھے’’ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘کس گھر میں نہیں دیکھاجاتا تھا ؟ ’’کم کم‘‘ کی ساڑھیاں ،چوڑیاں کراچی کی جامع کلاتھ مارکیٹ اور طارق روڈ پر نام کے ساتھ فروخت ہوتی تھیں اور تو او ر کراچی کی مویشی منڈی میں قربانی کے لئے’’کم کم ‘‘ نامی وزنی بچھیا بھی پہنچادی گئی تھی لیکن تب کسی جبران ناصر او ر نفیسہ شاہ کو کچھ تشویش ہوئی نہ انکی زبان حرکت میں آئی بس کنڈلی مارے منہ کی پٹاری میں بیٹھی رہی اب ارطغل نے ہماری ثقاقت ’’خطرے ‘‘ میں ڈال دی ہے دراصل دیسی لبرلز کے پیچھے موجود قوتوں کو خدشہ ہے کہ ارطغل مسلم نوجوانوں کو خلافت سے روشناس کرارہا ہے انہیں احساس تفاخر دے رہا ہے اوران کا یہ خدشہ درست ہے ان کی پریشانی بجا ہے ایسا ہی تو ہورہا ہے اللہ کروٹ کروٹ بخشے اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو وہ بھی تو یہی سمجھاتے تھے کاش وہ آج حیات ہوتے تو آرام کرسی پر بیٹھ کرحقے کی انی منہ میں دبائے مسکراتے ہوئے ارطغل دیکھتے اور زیرلب گنگناتے ہوئے کہتے کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے وہ کیا گردوں تھا تو جسکاہے اک ٹوٹا ہوا تارا